کراچی میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی رہائش گاہ کے باہر لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے دھرنا جاری ہے۔
دھرنے کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ کئی روز گزر جانے کے باوجود ان کے پیاروں کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ دھرنے میں کراچی کے 56 سالہ انجنئیر ممتاز حسین کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔ جنہیں 23 جنوری کو نامعلوم افراد گھر سے لے گئے اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔
اہل خانہ کے مطابق انہیں نہ تو پولیس اور نہ ہی سکیورٹی اداروں کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ ممتاز حسین کہاں ہیں۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
ممتاز حسین کے عزیز و اقارب کے مطابق وہ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ جبکہ وہ ایک ماہانہ رسالے سے بھی منسلک رہے ہیں۔ ان کا کسی شدت پسند تنظیم یا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
انجنئیر ممتاز حیدر کے اہل خانہ اس سے قبل کراچی پریس کلب کے باہر علامتی بھوک ہڑتال بھی کر چکے ہیں۔ لیکن اب وہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے کراچی میں واقع گھر کے باہر جاری احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں۔ یہاں کئی اور خاندان بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔
تقریباً ایک ہفتے سے جاری اس دھرنے کے آغاز میں 60 سے زائد افراد کے اہلخانہ شریک تھے۔ لیکن ان میں سے 18 افراد چند روز میں واپس آچکے ہیں۔
واپس آنے والوں کے اہل خانہ نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ سندھ پولیس کے انسداد دہشت گردی ونگ کے پاس قید تھے اور ان سے دہشت گردی کی حالیہ مختلف وارداتوں سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی۔
مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ راجہ ناصر عباس جعفری بھی دھرنے میں شریک ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ 'دھرنے میں شریک افراد صرف اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لئے ہر در پر دستک دے چکے ہیں۔
راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ مظاہرین کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ مجبور ہو کر یہ لوگ صدر پاکستان کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہیں شاید وہ ہی ان کی فریاد سن لیں۔
راجہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ملک کا قانون موجود ہے اگر کسی نے جرم کیا ہے تو عدالت میں اسے ثابت کیا جائے۔ لوگوں کو ایسے غائب کر دینا بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
حکام کے مطابق یہ افراد شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں صدر بشار الاسد کی حامی 'زینیبون' بریگیڈ کا حصہ رہے ہیں۔ اس بریگیڈ کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد شام جا کر اس بریگیڈ کا حصہ بنتے رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے 'زینیبون' بریگیڈ کو کالعدم قرار نہیں دیا تاہم بعض ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس بریگیڈ کا حصہ رہنے والے پاکستانی شہریوں کو وطن واپسی پر حراست میں لیا گیا۔ ان سے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
تاہم ان افراد کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ شام اور عراق میں صرف زیارتوں کے لئے گئے تھے۔
لاپتہ افراد سے متعلق سرکاری سطح پر تاحال کوئی ردعمل نہیں آیا کہ انہیں کن الزامات کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔ سکیورٹی ادارے عدالتوں میں اس بات سے مسلسل انکار کرتے آئے ہیں کہ شہریوں کی گمشدگی میں ان کا کوئی کردار ہے۔
اطلاعات کے مطابق شیعہ مکتبہ فکر کے علاوہ سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کی شکایات کرتی آئی ہیں۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے سرگرم کارکن جبران ناصر کا کہنا ہے کہ لوگوں کی جبری گمشدگی ایک المیہ ہے جس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ جبران ناصر کہتے ہیں کہ پارلیمینٹ کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جس سے جبری گمشدگیوں کی حوصلہ شکنی ہو۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ عرصہ دراز سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2019ء میں 136 افراد کی گمشدگی سے متعلق درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جبکہ مجموعی طور پر6051 درخواستوں میں سے 3793 درخواستیں نمٹائی جا چکی ہیں۔