لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کے لئے پیر کو ریلوے ہائی گراؤنڈ سے بلوچستان ہائیکورٹ تک پرامن ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں بچوں ، خواتین اور نوجوانوں نے سیکڑوں کی تعداد میں شرکت کی۔
ریلی کے شرکاءنے شہر کی مختلف شاہراہوں پر گشت کیا اور لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی اور اُنھیں انصاف دلانے سے متعلق نعرے لگائے ۔
وائس فا ر بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے سر براہ عطاءاللہ بلو چ نے وائس آف امر یکہ سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ گزشتہ 18 سالوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ نوجوانوں کو اُٹھا یا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہماری مائیں اور بہنیں پر یشان اور نوجوانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کےلئے قائم کئے گئے اداروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحر یک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ ہمیں انصاف نہیں مل جاتا ۔ہم پرامن طریقے سے اپنے احتجاج میں شدت لائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم سندھ کے لاپتہ افراد کے لواحقین ، خیبر پختونخوااور پنجاب کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے رابطے میں ہیں ۔ہم اسلام آباد میں دھرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ہم بلوچستان سے جبکہ باقی صوبوں والے اپنے صوبوں سے نکلیں گے۔ ہمارا دھرنا اسلام اباد میں ہوگا۔ ہم تب تک نہیں اُٹھیں گے جب تک ہمارے پیارے بازیاب نہیں ہوں گے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پر سنز کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان سے مئی 2017 تک 5200 لوگ لاپتہ تھے اور پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اب تک مزید 1200 سے زائد لوگ اُٹھائے گئے ہیں ۔
عطاءاللہ نے مزید کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی کو ششوں سے عیدالفطر سے لے کر اب تک 0 30 لاپتہ نوجوانوں کو چھوڑ دیا گیا ہے لیکن دوسر ی طرف بقول اُن کے لوگوں کو اُٹھانے کا سلسلہ جار ی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کے ادارے اب سیاسی وابستگی رکھنے کی بنیاد پر بھی نوجوانوں کو اُٹھارہے ہیں حال ہی میں تمب، پنجگور ،آواران سے کافی تعداد میں لوگوں کو اُٹھایا گیا ہے جن کے لواحقین سےہم رابطے کر رہے ہیں ۔عطااءاللہ نے مزید دعویٰ کیا کہ صوبے کے بعض علاقوں میں اب بھی آپریشن جاری ہے اور وہاں سے نوجوانوں کے ساتھ خواتین کو بھی اُٹھا یا جاتا ہے ۔
عطاءاللہ بلوچ کے الزامات سے متعلق موقف جاننے کے لئے وائس آف امر یکہ نے بلوچستان کی حکومت کی تر جمان اور وزیر اعلیٰ کی مشیر بشریٰ رند سے متعدد بار رابطے کو شش کی گئی، پیغام بھی بھجوایا گیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے کے لوگ لاپتہ افراد کے حوالے سے کافی حساس ہیں کیونکہ ماضی میں ایک ہزار سے زائد لاپتہ افراد کی لاشیں مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں تاہم چند ماہ پہلے ہی یہ سلسلہ بند ہوا ہے ۔
صوبے کی قوم پرست بلوچ جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک مختلف علاقوں سے پندرہ ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہوچکے ہیں تاہم وفاقی حکومت اور اس کے اداروں نے ان اعداد و شمار کو درست قرار نہیں دیا۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کےلئے سُپر یم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جسٹس کی سر براہی میں کمیشن قائم کیا گیا جو لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے اقدامات کر رہا ہے اور کمیشن کی کو ششوں سے کئی لوگ بازیاب بھی ہو چکے ہیں ۔
کمیشن کے سر براہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے کو ششیں تاحال جاری ہیں۔تمام لاپتہ افراد کو جلد بازیاب کر الیا جائے گا۔