بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں اب کیا صورتِ حال ہے؟ جانیے مرتضیٰ زہری کی رپورٹ میں۔
بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر مختلف اضلاع میں بیک وقت حملے ہوئے ہیں جن میں 37 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں نے متعدد گاڑیاں بھی نذرِ آتش کی ہیں۔ تفصیلات بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلح افراد کی جانب سے قومی شاہراہوں کو ناکے لگا کر بند کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ضلعی حکام نے بتایا ہے کہ مذکورہ لاشوں سے کسی قسم کی شناختی دستاویزات برآمد نہیں ہوئیں اس لیے شناخت کے لیے فنگر پرنٹس لے کر نادرا کو ارسال کیے گئے ہیں۔
بلوچستان میں پاکستان کے یومِ آزادی سے قبل گیارہ سے 14 اگست تک مختلف واقعات میں 5 افراد ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں کاونٹر ٹریزیم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) حکام نے کہا ہے کہ مستونگ میں گزشتہ شب پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد تخریب کاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ دھرنے میں شامل کارکنوں کی ہلاکت کا مقدمہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے خلاف درج ہو گا۔
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے اور شاہراہوں کی بندش کے باعث اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے کوئٹہ میں بھی پیٹرول کی قلت ہے اور متعدد پیٹرول پمپس بند ہیں۔ بلوچستان میں احتجاج اور دھرنوں کی صورتِ حال کے بارے میں مزید بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
27 جولائی کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے بڑی تعداد میں بلوچ یکجہتی کے کاکنوں کو گوادر میں ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کے لیے آنے سے سرکاری سطح پر روکا گیا اور قومی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کے بعد سے گوادر سمیت کوئٹہ، مکران، قلات اور رخشان ڈویژن میں حالات خراب ہیں۔
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے چار روز سے جاری دھرنے کے باعث موبائل سگنلز، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز معطل ہیں۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر بی وائے سی کے احتجاج اور دھرنوں کے باعث ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین بھی تفتان اور گوادر کے درمیان پھنس گئے ہیں۔
پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ بلوج راج مچی کی آڑ میں سیکیورٹی اہلکاروں کا نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ دھرنے کی قیادت کرنے والی ماہرنگ بلوچ نے فورسز کے کریک ڈاؤن میں شرکا پر تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔
بی وائی سی کا قافلہ گوادر جلسے میں شرکت کے لیے کوئٹہ سے جمعے کو روانہ ہوا تھا۔ تاہم ہفتے کو مستونگ کے علاقے میں شرکا کی گاڑیوں پر فائرنگ ہوئی۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے 28 جولائی کو گوادر میں 'بلوچ راجی مچی' جلسے کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی حکومت کے نمائندے اس جلسے کی ٹائمنگ اور مقام پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ مزید تفصیل مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
نو ماہ سے جاری دھرنا اتوار کو ختم ہو گیا تھا اور باب دوستی سے دونوں جانب لوگوں کو شناختی کارڈ اور تذکرہ پر سفر کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
کوئٹہ سے لاپتا ہونے والے نوجوان ظہیر زیب کی بازیابی کے لیے لواحقین اور مسنگ پرسنز کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ ظہیر کو سی ٹی ڈی نے لاپتا کیا ہے۔ البتہ صوبائی وزیرِ داخلہ کا دعویٰ ہے کہ ظہیر عسکریت پسندوں کے کیمپس میں جاتے رہے ہیں۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ جبری گمشدگی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے جب کہ حکومت اس دعوے کو مسترد کر چکی ہے۔ تفصیلات دیکھیے کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی رپورٹ میں۔
حکام کے مطابق اغوا ہونے والے سیاحوں میں سے دو کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے جب کہ چھ افراد کوئٹہ کے مقامی سیٹلرز ہیں اور باقی دو افراد مقامی بلوچ اور پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
چمن بارڈر پر تاجروں کے احتجاج اور دھرنے کے باعث حکومت نے بادینی کے مقام پر افغانستان کے ساتھ ایک اور بارڈر کراسنگ فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر کیا ردعمل آ رہا ہے اور بادینی ہے کہاں؟ جانیے مرتضیٰ زہری کی اس ویڈیو میں۔
بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں چند روز سے پھر حالات کشیدہ ہیں۔ شہر کے مرکزی علاقوں میں مظاہرین او سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ ان جھڑپوں میں 30 سے زیادہ مظاہرین اور راہ گیر جب کہ 15 سیکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ مزید تفصیلات بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
صوبائی وزیرِ داخلہ کے مطابق بلوچستان حکومت کے پاس مئی کے مہینے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گمشدگیوں کے حوالے سے کسی قسم کی رپورٹ نہیں ہے۔
مزید لوڈ کریں