دکی واقعے میں قتل ہونے والے روزی خان نے واقعے سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی سے کہا تھا کہ "اگر کوئی اور روزگار کا ذریعہ مل جائے تو وہ اس خطرناک اور جان لیوا کام کو چھوڑ دیں گے۔"
بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلے کانوں پر نامعلوم مسلح افراد نے راکٹ حملوں اور دستی بموں سے حملہ کیا ہے جب کہ فائرنگ سے بھی مزدوروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس واقعے میں اب تک 20 کان کنوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پک اپ ڈرائیورز، سمندر میں کشتیاں چلانے والے اور سیاسی جماعتوں کا پاکستان ایران سرحد پر کاروبار کے مواقع محدود کرنے کے خلاف چار دن سے جاری دھرنا انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا ہے۔
کوئٹہ کینٹ تھانے کے ایک اور اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب ملزم کو تھانے میں منتقل کیا گیا تو پولیس اہلکار طیش میں تھا۔
بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین بالاچ قادر نے کہا ہے کہ حکومت نے فورتھ شیڈول میں نام ڈال کر ہمیں ایک ایسی کالعدم تنظیم کے ساتھ منسلک کر دیا ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
بی یو جے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پریس کلب ایک ذمہ دار ادارہ ہے جس نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا ہے، پریس کلب نے بلاامتیاز، بغیر کسی سیاسی وابستگی اور بنا فریق بنے کلب کا فورم آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنی آواز اٹھانے والوں کو دیا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 50 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم ان خاندانوں کی دی جائے گی جن کے پیارے گزشتہ پانچ برس سے لاپتا ہیں۔ حکومت کے اس اعلان پر لواحقین کیا کہتے ہیں؟ جانیے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
بلوچستان میں مختلف مقامات پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں کتنا نقصان ہوا؟ بتا رہے ہیں کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری اس رپورٹ میں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجماں اسٹیفن دوجارک نے کہا ہےکہ اسیکرٹری جنرل نے زور دیا ہے کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابل قبول ہیں۔ وہ لواحقین سے اپنی دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحقیقات کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔
بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہو گئی ہے جن میں 14 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں اب کیا صورتِ حال ہے؟ جانیے مرتضیٰ زہری کی رپورٹ میں۔
بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی برسی کے موقع پر مختلف اضلاع میں بیک وقت حملے ہوئے ہیں جن میں 37 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں نے متعدد گاڑیاں بھی نذرِ آتش کی ہیں۔ تفصیلات بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ بعض علاقوں میں مسلح افراد کی جانب سے قومی شاہراہوں کو ناکے لگا کر بند کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ضلعی حکام نے بتایا ہے کہ مذکورہ لاشوں سے کسی قسم کی شناختی دستاویزات برآمد نہیں ہوئیں اس لیے شناخت کے لیے فنگر پرنٹس لے کر نادرا کو ارسال کیے گئے ہیں۔
بلوچستان میں پاکستان کے یومِ آزادی سے قبل گیارہ سے 14 اگست تک مختلف واقعات میں 5 افراد ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں کاونٹر ٹریزیم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) حکام نے کہا ہے کہ مستونگ میں گزشتہ شب پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد تخریب کاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ دھرنے میں شامل کارکنوں کی ہلاکت کا مقدمہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے خلاف درج ہو گا۔
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے اور شاہراہوں کی بندش کے باعث اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ سڑکوں کی بندش کی وجہ سے کوئٹہ میں بھی پیٹرول کی قلت ہے اور متعدد پیٹرول پمپس بند ہیں۔ بلوچستان میں احتجاج اور دھرنوں کی صورتِ حال کے بارے میں مزید بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری۔
27 جولائی کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے بڑی تعداد میں بلوچ یکجہتی کے کاکنوں کو گوادر میں ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کے لیے آنے سے سرکاری سطح پر روکا گیا اور قومی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کے بعد سے گوادر سمیت کوئٹہ، مکران، قلات اور رخشان ڈویژن میں حالات خراب ہیں۔
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے چار روز سے جاری دھرنے کے باعث موبائل سگنلز، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز معطل ہیں۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں قومی شاہراہوں پر بی وائے سی کے احتجاج اور دھرنوں کے باعث ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین بھی تفتان اور گوادر کے درمیان پھنس گئے ہیں۔
مزید لوڈ کریں