|
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند میں مقامی خواتین کا سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر گھروں پر قبضہ کرکے چیک پوسٹ اور کیمپ بنانے کے خلاف دیا گیا دھرنا ختم ہو گیا ہے۔
دھرنے کے شرکا نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ منگل کی شب ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک تحریری معاہدہ طے پایا جس کے بعد خواتین نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔
یہ احتجاجی دھرنا پاکستان-ایران کے سرحدی علاقے مند وھیر میں گزشتہ 12 روز تک جاری رہا جس میں پانچ سو سے زائد خواتین، مرد اور بچے شریک تھے۔
دھرنے کے شرکا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ دنوں تربت سے رکن صوبائی اسمبلی میر برکت رند نے مظاہرین سے فون کے ذریعے رابطہ کیا تھا اور دھرنا ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
شرکا کے مطابق میر برکت رند نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اعلیٰ حکام سے رابطے میں ہیں اور جلد ہی مسئلے کا حل نکالا جائے گا۔
بلوچ ویمن فورم کی آرگنائزر ڈاکڑ شلی بلوچ کے مطابق دھرنے کے شرکا اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان مذاکرت کے تین دور چلے۔ لیکن دھرنے میں شریک خواتین نے ڈپٹی کمشنر کیچ کی دھرنے میں آمد اور تحریری معاہدے کی شرط عائد کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکڑ شلی کا کہنا تھا کہ گزشتہ شب ڈپٹی کمشنر کیچ اور دیگر سیاسی اور قبائلی عمائدین مند کے علاقے وھیر میں دھرنے کے مقام پر پہنچے۔
ڈاکڑ شلی نے بتایا ہے کہ ڈپٹی کمشنر اسماعیل ابراہیم، اسسٹنٹ کمشنر تمپ محمد حنیف نورزئی اور قبائلی رہنما ارشاد بلوچ نے خواتین کے ساتھ مذاکرات کیے۔
فریقین میں کیا معاہدہ ہوا؟
ڈاکٹر شلی کے مطابق معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ فرنٹیئر کور (ایف سی) کی جانب سے دو ماہ کے اندر مقبوضہ گھر کو خالی کیا جائے گا۔ جب کہ آبادی میں قائم فورسز کی چوکی ہٹانے کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کیچ کریں گے۔
جے آئی ٹی دو ماہ کے اندر سیکورٹی فورسز کے چوکی آبادی سے باہر کسی مقام پر منتقل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔
تحریری معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دوبارہ کسی بھی آبادی میں چوکی قائم نہیں کی جائے گا۔
فریقین میں مذاکرات کے دوران اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کے شرکا کی کسی قسم کی گرفتاری یا پروفائلنگ عمل میں نہیں لائی جائے گی۔
دوسری جانب اس معاہدے سے متعلق وائس آف امریکہ نے ڈپٹی کمشنر کیچ سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
البتہ ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فریقین میں معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکام نے مظاہرین کے رہنماؤں کو ڈپٹی کمشنر آفس میں دوبارہ ملاقات کرنے کی دعوت دی ہے۔
مقامی افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ ماضی میں مکران ڈویژن میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سرکاری اسکولوں، اسپتالوں، گھروں اور دیگر عمارتوں میں چیک پوسٹیں قائم کی جاتی رہی ہیں۔
تاہم ان کے بقول مند کے علاقے میں گھروں پر قبضے کے خلاف اپنی نوعیت کا خواتین کا یہ پہلا احتجاجی دھرنا تھا۔
مند مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کی ایک اہم تحصیل ہے جو پاکستان-ایران سرحد کے قریب واقع ایک آباد علاقہ ہے۔
'دبئی سے لوٹے تو گھر پر چیک پوسٹ بنی ہوئی تھی'
دھرنے میں شریک ایک خاتون نور جان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وھیر کی رہائشی ہیں۔ پانچ سال قبل وہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے دبئی گئے تھے۔ جب وہ ایک ماہ بعد واپس لوٹے تو انہیں شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ واپس آنے پر انہوں نے دیکھا کہ سیکیورٹی فورسز نے ان کے گھر پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ صورتِ حال ان کے لیے نہایت مشکل اور پریشانی کا باعث بنی کیوں کہ ان کا گھر اب ان کی ملکیت نہیں رہا تھا۔
نور جان کا خاندان 20 افراد پر مشتمل ہے اور گھر کے بعض افراد دبئی میں رہائش پزید ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے سیکیورٹی فورسز سے اپنے گھر کا قبضہ وا گزار کرانے کی کوششیں کر رہی ہیں مگر ناکام رہی ہیں۔
نور جان کے مطابق وھیر کا دیہی علاقہ آٹھ سو گھروں پر مشتمل ہے جس میں ان کے گھر پر قبضہ ہوا ہے جب کہ آبادی میں فورسز کی موجودگی سے پورا علاقہ پریشان ہیں۔
نور جان کا گھر چار ایکٹر زمین پر مشتمل ہے جس میں باغ اور کھیتی باڑی کے لیے زمین کے علاوہ 10 کمروں پر بنگلہ تعمیر ہے۔
ان کے بقول یہ ان کا آبائی گھر ہے اور وہ کسی بھی صورت اسے فورسر کے حوالے نہیں کرنا چاہتیں۔
اس سے قبل دھرنے کے مقام پر تربت کے متحرک سماجی کارکن گلزار بلوچ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ اگر فورسز نے وھیر کا علاقہ خالی نہیں کیا تو اس کے خلاف سخت شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی اور دیگر شاہراہوں پر بھی دھرنا دیا جائے گا۔
مند میں دھرنا مظاہرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے آٹھ نومبر کو ضلع کیچ میں تربت، مند، تمپ اور دیگر علاقوں میں شٹر ڈاون ہڑتال بھی کی گئی تھی۔
بلوچستان نیشل پارٹی، نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی و سماجی جماعتوں نے اس ہڑتال کی حمایت کی تھی۔
فورم