رسائی کے لنکس

بلوچستان میں 20 کان کنوں کا قتل؛ 'رات دیر تک جاگ رہے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی'


  • بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلے کی کان پر راکٹوں اور دستی بموں سے حملہ کیا گیا ہے۔
  • حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے بھی کان کنوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ حکام نے حملے میں 20 کان کنوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
  • دکی میں کوئلے کی کانوں میں کوئٹہ، پشین کے علاوہ سوات اور شانگلہ اور اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک افغانستان سے تعلق رکھنے والے مزدور کام کرتے ہیں۔
  • عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ کی آواز کے ساتھ ہی مزدور یہاں وہاں بھاگنے لگے۔ انہوں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔

بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلے کی کانوں پر نامعلوم مسلح افراد نے راکٹ حملوں اور دستی بموں سے حملہ کیا ہے جب کہ فائرنگ سے بھی مزدوروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس واقعے میں اب تک 20 کان کنوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

دکی سٹی کی پولیس کے ایس ایچ او ہمایوں خان ناصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا ہے کہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب دکی شہر سے کچھ فاصلے پر کوئلے کی کانوں میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

ایس ایچ او کا مزید کہنا تھا کہ مسلح افراد نے پہلے کوئلے کی کان پر راکٹوں اور دستی بموں سے حملہ کیا اور بعد ازاں شدید فائرنگ کی۔

انہوں نے کہا کہ اس حملے میں متعدد کان کن نشانہ بنے ہیں کئی مزدور تو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے۔

ایس ایچ او کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ رات گئے مسلح افراد اور فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے حملہ آوروں کو پہنچنے والے کسی قسم کے نقصان کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔

دکی میں کان کنوں پر حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم یا گروہ نے قبول نہیں کی۔

دکی بلوچستان کا ایک چھوٹا ضلع ہے۔ یہ علاقہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر سے لگ بھگ 225 کلومیٹر دور ہے جہاں کوئلے کی کانیں ہیں۔ ان کانوں سے کوئلہ نکالنا مقامی آبادی کے معاش کا بڑا ذریعہ ہے۔

ان کانوں میں بلوچستان سے کوئٹہ اور پشین کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے علاقوں سوات اور شانگلہ کے مزدور بھی کام کرتے ہیں جب کہ کچھ کان کنوں کا تعلق افغانستان سے بھی ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دکی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ملزمان کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرکاری طور پر نہیں بتایا کہ کتنے حملہ آور تھے اور کارروائی کے بعد وہ کہاں فرار ہوئے۔

’آج کے بعد ان کوئلے کی کانوں میں کام بند ہونا چاہیے‘

اس حملے میں ہلاک ہونے والے کان کنوں کی لاشوں اور زخمی مزدوروں کو مقامی سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا۔

اسپتال میں ایک کان کن عبد الباری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جمعرات کو کوئلے کی کانوں میں ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے اس لیے کان کن رات دیر تک جاگتے ہیں۔

ان کے بقول ’’گزشتہ شب بھی ہم دیر تک جاگ رہے کہ ساڑھے بارہ بجے اچانک فائرنگ شروع ہو گئی جس کے سبب بھگدڑ مچ گئی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ فائرنگ کی آواز کے ساتھ ہی مزدور یہاں وہاں بھاگنے لگے۔ مزدوروں نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔

عبد الباری کا کہنا تھا کہ کئی کان کن کمروں کی چھتوں پر سو رہے تھے۔ ان پر دستی بم پھینکے گئے۔ بموں کے حملے کی وجہ سے ان کی موت موقع پر ہی ہو گئی تھی۔

بعض عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی افراد راکٹوں کے حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

کان کن عبد الباری نے کہا کہ یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ کچھ دیر پہلے جن ساتھیوں سے ہم باتیں کر رہے تھے اور کھیل رہے تھے وہ اب ہم میں نہیں رہے۔

دکی اسپتال میں موجود ایک اور عینی شاہد حفیظ اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حملہ آوروں نے ان کے کمرے کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن انہوں نے دروازہ نہیں کھولا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور پشتو زبان بول رہے تھے۔

ان کے بقول ’’حملہ آور مزدوروں سے کہہ رہے تھے کہ آج کے بعد ان کوئلے کی کانوں میں کام بند ہونا چاہیے۔‘‘

دکی میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ

واقعے کے حوالے سے ایک مقامی صحافی فرید اللہ کا کہنا تھا کہ رات گئے دکی میں شدید فائرنگ اور بم دھماکوں کی آوازیں آئیں اور یہ سلسلہ مسلسل دو گھنٹوں تک جاری رہا جس سے مقامی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فرید اللہ نے مزید کہا کہ جب ہم نے رپورٹنگ کی غرض سے معلومات جمع کرنی شروع کیں تو معلوم ہوا کہ نامعلوم مسلح افراد نے جیند کول مائنز پر حملہ کیا ہے۔

ان کے بقول ’’جب ہم اسپتال پہنچے تو ہر طرف خون سے لت پت لاشیں نظر آ رہی تھیں۔‘‘

ماضی میں دکی کوئلہ کانوں میں حادثات کے باعث کئی کان کن ہلاک ہوئے ہیں جب کہ یہاں سے کوئلہ سپلائی کرنے والی مال گاڑیوں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں۔

اسی طرح دکی، ہرنائی اور کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں کان کنوں کے اغوا کے بعض واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

مقامی صحافی فرید اللہ کے مطابق دکی میں کوئلے کی کانوں پر منظم انداز سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔

اسی نوعیت کا ایک واقعہ 2021 میں بلوچستان کے علاقے مچھ بولان میں پیش آیا تھا جس میں مسلح افراد نے تیز دھار آلے سے 11 مزدوروں کے سر قلم کیے تھے۔ ان مزدوروں کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا۔

ہلاک کان کنوں کا تعلق کہاں سے ہے؟

اسپتال ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ہلاک ہونے والے کان کنوں میں سے تین کا تعلق افغانستان سے ہے جب کہ چھ کا ضلع ژوب، چار کا ضلع قلعہ سیف اللہ، تین کا ضلع پیشن اور دیگر کا تعلق لورالائی، ہرنائی اور کچلاک کے مختلف علاقوں سے ہے۔

واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو مزید طبی امداد فراہم کرنے کے لیے لورالائی کے سرکاری اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

واقعے کے خلاف بلوچستان میں مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے سخت مؤقف سامنے آیا ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن، ورکر فیڈریشن اور انجمن تاجران نے واقعے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ہے۔

جمعرات کو دکی لیبر فیڈریشن نے ہلاک مزدوروں کی لاشوں کے ہمراہ دکی کے باچا خان چوک پر احتجاجی دھرنا شروع کیا۔ اس واقعے کے خلاف شہر بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے اور تمام کاروباری مراکز بند ہیں۔

بلوچستان کے مسائل کا حل اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:54 0:00

واضح رہے ان کانوں سے کوئلہ نکالنے کا کام جیند کول مائنز کمپنی کرتی ہے جس کے مالک ڈسٹرکٹ چیئرمین حاجی خیر اللہ ناصر ہیں۔ حاجی خیر اللہ ناصر کا کہنا تھا کہ مسلح افراد کی فائرنگ سے ان کی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔

ان کے مطابق حملہ آوروں نے کوئلہ کی 10 کانوں میں نصب انجن بھی نذرِ آتش کر دیے ہیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کان کنوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ملوث شر پسند عناصر قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی کان کنوں کے قتل پر مذمتی بیان جاری کیے۔

XS
SM
MD
LG