|
کوئٹہ — بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں مسافر بس بم دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک جب کہ 36 کے قریب زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچ عسکریت پسند تنظیم ’بی ایل اے‘ نے مسافر بس پر حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
حکام اور عینی شاہدین کے مطابق واقعہ ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں نیو بہمن کے علاقے میں ہفتے کی شام پیش آیا۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی۔
کیچ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) راشد بلوچ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا ہے کہ تربت واقعے میں ریمورٹ کنڑول بم کا استعمال کیا گیا ہے۔
ادھر ایس ایچ او تربت نے بتایا ہے کہ واقعے کے بعد قریب کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی شدید تقصان پہنچا ہے۔
معروف میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ پر تربت بم دھماکے کی مختلف تصاویر اور ویڈیو کلپس زیرِ گردش ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے بعد اس مقام پر آگ بھڑک اٹھی ہے جس پر کافی کوشش کے بعد قابو پایا گیا۔
ان تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کی زد میں آنے والی بس جل کر مکمل طور پر خاکستر ہوگئی ہے ۔
ان ویڈیو کلپس اور تصاویر کی تاحال سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا ہے کہ ایس ایس پی زوہیب محسن کی گاڑی بھی دھماکے کی میں زد میں آئی ہے جس کے نتیجے میں وہ معمولی زخمی ہوئے ہیں۔
ایم ایس تربت ٹیچنگ اسپتال ڈاکٹر احمد بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تربت واقعے میں زخمی ہونے والے 11 افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا جن کو بنیادی طبی امداد کی فراہمی کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر احمد کے مطابق واقعے میں زخمی ہونے والوں میں ایس ایس پی زوہیب محسن ان کے خاندان کے کچھ افراد اور پولیس کے اہلکار شامل تھے جو معمولی زخمی ہوئے تھے۔
ترجمان بلوچستان حکومت نے بتایا ہے کہ تربت بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے چار افراد کی شناخت ہوگئی ہے اور ان کی لاشیں ضروری کارروائی کے بعد آبائی علاقوں کو روانہ کردی جائیں گی۔
کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے ) نے ذرائع ابلاغ کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ تربت میں تنظیم کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
ادھر تربت کے ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کو ہونے والے واقعے میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
تاہم سیکیورٹی فورسز یا بلوچستان حکومت کی جانب سے تاحال ہفتے کو ہونے والے دھماکے میں کسی سیکیورٹی اہل کار یا افسر کے ہلاک ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ سال مارچ میں تربت کے علاقے میں نیول بیس پر حملہ ہوا تھا جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے اس واقعے کی ذمہ داری بھی کالعدم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔
بلوچستان میں سال 2024 کے دوران امن و امان کی صورتِ حال مخدوش رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ برس کے دوران سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور بم دھماکوں میں 200 سے زائد اہلکار اور عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔