رسائی کے لنکس

اسحاق ڈار کا دورۂ بنگلہ دیش؛ 'دونوں طرف رابطے کی خواہش پائی جاتی ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آئندہ ماہ بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے۔
  • ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا دورۂ بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے بڑھتے تعلقات کا عکاس ہوگا، مبصرین
  • اسحاق ڈار کا دورۂ ڈھاکہ نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے میں معاون ثابت ہو گا، سابق سفارت کار
  • دو دہائیوں سے دونوں ملکوں کے دروازے بند تھے اور سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مشترکہ گروپ بھی کام نہیں کر رہا تھا، رفیع الزماں صدیقی
  • بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان حالیہ عرصے میں تجارت بحال ہوئی ہے اور ویزوں کے اجراء میں نرمی کے بعد براہِ راست پروازوں کے آغاز پر کام ہو رہا ہے، رفیع الزماں
  • ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کتنا عرصہ رہے گی اور مستقبل میں حکومت کی شکل کیا ہو گی، قمر چیمہ
  • حسینہ واجد کی جماعت نے دوطرفہ تعلقات کو اس بات سے مشروط کر رکھا تھا کہ پاکستان 1971 کے واقعات پر معذرت کرے اور یہ معاملہ ڈھاکہ کی عبوری حکومت بھی اٹھا رہی ہے، قمر چیمہ

اسلام آباد_ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی آ رہی ہے اور ایسے میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آئندہ ماہ ڈھاکہ کا دورہ کریں گے۔

اسحاق ڈار نے جمعرات کو دفترِ خارجہ میں میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ وہ اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب کی دعوت پر فروری میں ڈھاکہ جائیں گے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے دورۂ ڈھاکہ کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی گزشتہ برس اگست میں حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نہ صرف سیاسی، سفارتی، بلکہ کاروباری و ثقافتی تبادلوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا دورۂ بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے بڑھتے تعلقات کا عکاس ہوگا۔

بنگلہ دیش میں پاکستان کے سابق سفیر رفیع الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کا دورۂ ڈھاکہ نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے میں معاون ثابت ہو گا بلکہ یہ دورہ دوطرفہ روابط کے لیے بھی مفید ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو دہائیوں سے دونوں ملکوں کے دروازے بند تھے اور سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مشترکہ گروپ بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ تاہم حالیہ عرصے میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تجارت بحال ہوئی ہے اور ویزوں کے اجراء میں نرمی کے بعد براہِ راست پروازوں کے آغاز پر کام ہو رہا ہے۔

رفیع الزمان صدیقی نے کہا کہ بنگلہ دیش کے پاکستان کے قریب آنے کی ایک وجہ یہ ہے بھی ہے کہ بنگالی عوام بھارت کے کردار سے خوش نہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1971 سے لے کہ اگست 2024 تک بھارت کا بنگلہ دیش پر بہت اثر و رسوخ رہا ہے۔ لیکن اب عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہو رہی ہے۔

'دونوں طرف رابطے کی خواہش پائی جاتی ہے'

بنگلہ دیش کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی ایک وجہ یہ بھی ہے شیخ حسینہ نے اب تک بھارت میں پناہ لے رکھی ہے اور ڈھاکہ میں ملک کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ نئی دہلی شیخ حسینہ کو ملک بدر کر کے بنگلہ دیش کے حوالے کر دے، جس سے بھارت اب تک انکاری ہے

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ برس کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کا شروع ہونے والا احتجاج اس قدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ پانچ اگست کو وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہونا پڑ گیا تھا۔

بنگلہ دیش میں اس وقت نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہے جس کا کہنا ہے کہ اصلاحات کے بعد ملک میں عام انتخابات کرا دیے جائیں گے۔

شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے ڈھاکہ اور نئی دہلی کے تعلقات میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے جب کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو رہی ہے۔

اسلام آباد کے تھنک ٹینک صنوبر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں 'دو ملک ایک قوم' کا نعرہ بھی لگ رہا ہے اور مستقبل میں اگر ڈھاکہ کی حکومت اپنی سمت اسلامی بنیاد پر رکھتی ہے تو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت مضبوط ہوں گے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ کی حکومت نے دونوں ملکوں کے عوامی روابط کو مصنوعی انداز سے روکے رکھا تھا، اس کے برعکس عوامی سطح پر ایک دوسرے سے رابطے رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔

قمر چیمہ نے کہا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کتنا عرصہ رہے گی اور مستقبل میں حکومت کی شکل کیا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش چین کو ترقی میں اپنا شراکت دار کہتا ہے اور بھارت کی کوشش ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کو یہ پیغام دیا جائے کہ ڈھاکہ بیجنگ کے قریب ہونے کی وجہ سے نئی دہلی کی مخالفت میں کھڑا ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب تک بنگلہ دیش میں عوامی نمائندہ حکومت نہیں آتی اسلام آباد کے ڈھاکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکتے۔

پاکستان اور بنگلہ کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والی گرم جوشی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ڈھاکہ میں قائم عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے درمیان قاہرہ میں ہونے والی حالیہ ملاقات کے بعد دیکھی جا رہی ہے۔

اس سے قبل شیخ حسینہ کے پندرہ سالہ دورِ حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی تھی جس کی وجہ مبصرین شیخ حسینہ کا بھارت کی جانب جھکاؤ قرار دیتے ہیں۔

رفیع الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے اپنے تعلقات کو بھارت کے تناظر میں نہیں لینا چاہیے۔ نئی دہلی اور ڈھاکہ کے اختلاف کو اسلام آباد ڈھاکہ دوطرفہ تعلقات سے الگ رکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سیاست میں غیر متوقع صورتِ حال بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ حسینہ واجد کی حکومت کا اچانک خاتمہ ہوا اس طرح مستقبل میں بھی کسی نئی صورتِ حال کا پیدا ہو جانا خارج از امکان نہیں۔

قمر چیمہ کے بقول حسینہ واجد کی جماعت نے دوطرفہ تعلقات کو اس بات سے مشروط کر رکھا تھا کہ پاکستان 1971 کے واقعات پر معذرت کرے اور یہ معاملہ عبوری حکومت بھی اٹھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ 1971 کے معاملے کو کیسے حل کرنا ہے اور عوام اسے قبول بھی کرتے ہیں یا نہیں۔

قمر چیمہ کے بقول، اگر ڈاکٹر یونس پاکستان کے دورے پر آتے ہیں تو 1971 کے واقعات کا معاملہ بھی سامنے آئے گا۔

تاہم رفیع الزمان صدیقی کے خیال میں 1971 کے واقعات پاکستان کے لیے بھی حساس معاملہ ہے اور حکومت کو اس پر کوئی بھی قدم جلد بازی میں نہیں اٹھانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پچاس سال پرانا معاملہ ہے جس پر دونوں طرف بات چیت ہو سکتی ہے اور بات چیت کے نتیجے میں ہی ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے کا موقع ملے گا۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب کی قیادت میں 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس سے قبل موجودہ بنگلہ دیش مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG