علی عمران وائس آف امریکہ اردو سے منسلک ہیں اور واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہیں۔
تحقیق کی مصنفہ ، بیکا ٹیلر، جو یونیورسٹی آف الی نوے کے زراعت اور کنزیومر اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ لاس اینجلس کاونٹی میں لوگوں کے ٹریفک میں پھنسنے سے فاسٹ فوڈ ریستوران جانے میں ایک فیصد اضافہ دیکھا گیا جو کہ سالانہ 12 لاکھ کی تعداد بنتی ہے۔
لیکن یہ بات شاید بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہے کہ 1852 میں شائع ہونے والے اس ناول کا محر ک بننے والا سمندر میں پیش آنے والا واقعہ در حقیقت جدید دور کی کسی انتہائی ڈراونی فلم سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔
سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کھانے کو روکنے والے ان نیوران کی دریافت موٹاپے کے لیے علاج میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں امریکہ اول کی پالیسی پر پیرا عمل ہوتے ہوئے تجارت کو امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات میں مرکزی حیثیت دی ہے جبکہ بھارت کے وزیر اعظم نر یندر مودی کی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ نئی دہلی درآمدات پر ٹیرف کے معاملے پر امریکی خدشات کو کسی حد تک کم کرنے کو تیار ہے۔
" انسٹاگرام کے امریکی صارفین مختلف پوسٹس پر اپنا ردعمل ذاتی سطح پر تعلقات بنانے، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مشترکہ طور پر حمایت یا پسندیدگی کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ لوگ کسی چیز یا شخصیت سے اپنے جذباتی لگاو اور کمپنیاں اپنے بزنس کو آگے بڑھانے کے ایک معیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔"
اکنا کے مطبق ان مسلم خاندانوں کو شدید مالی نقصان ہوا اور ان کے گھر اور کاریں بھی آگ میں جل گئیں۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے مطابق ان خاندانوں کو شیلٹر، خوراک اور گرم کپڑوں جیسی ضروری امداد فراہم کر رہی ہے۔
ہم پہلے ہی تقریباً 2500 افراد کو تازہ خوراک مہیا کر چکے ہیں جبکہ ہیلتھ سنٹرز کے ذریعہ اتمام عمر کے افراد کو طبی خدمات فراہم کی جائیں گی۔ اپنا
اس سوال پر کہ کیا حزب اللہ، جو سال 2006 کی اسرائیل کے ساتھ جنگ میں فتح یاب ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، نئی قیادت کے ساتھ اسرائیلی حملوں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ اے آر سید کہتے ہیں کہ "ابھی تک تو تنظیم نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کیونکہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہےاور اپنے وطن کا دفاع کرنے کا جذبہ بھی ہے۔"
پاکستان اکتوبر کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا اور برکس فورم میں رکنیت کا بھی خواہاں ہیں لیکن ماہرین سوال اٹھا ر ہے ہیں کہ کیا ایسا ملک جو دنیا کے کئی اہم خطوں کے سنگم پر واقع ہے اپنی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوراندیش پالیسیاں اپنانے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل کے دو ہمسایہ ملک، غزہ سے متصل اور اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے والا مصر اور نصف سے زیادہ فلسطینی نژاد آبادی والا اردن اس وقت سلامتی کے نئے چیلنجز کے دھانے پر ہیں جہاں دونوں ملکوں کو اقتصادی، سیاسی اور امن و امان کے خطرات کا سامنا ہے۔
مبصرین کے مطابق، عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے اسرائیل کے تباہ کن ملٹری ردعمل سے پیدا ہونے والی انسانی بحران اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے پیش نظر نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کی اعلی قیادت نے کوئی مضبوط سفارتی حمکت عملی نہیں اپنائی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اور ایرانی عسکری اقدامات نے مشرق وسطی میں جنگ کے خطرات کو اچانک کئی درجے بڑھا دیا ہے۔ مزید یہ کہ ایک سال سے جاری غزہ تنازعہ کے باعث بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کی جانب امریکی کردار کو بھی کئی حوالوں سے نمایاں کردیا ہے۔
بیرون ممالک سے پاکستانی نژاد طلباء کو مطالعاتی دوروں کے ذریعہ پاکستانی ثقافت، تاریخ اور تمدن سے روشناس کرایا جائے گا تاکہ تارکین وطن کی نئی نسل کے پاکستان سے روابط مضبوط کیے جا سکیں۔
بعض مبصرین اسے امریکہ کی طرف سے بڑے ہتھیاروں کے پھیلاو کی روک تھام کے لیے معمول کا اقدام قرار دیا ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہے۔
یوکرین اور غزہ میں جاری جنگوں کے تناظر میں جہاں بعض رہنما اقوام متحدہ کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں وہیں ان تنازعات نے 15 رکنی سلامی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تھنک ٹینک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کے پاس دو طرفہ تجارت کو بحال کر کے تعلقات میں بہتری لانے کا موقع ہے۔
امریکہ نے ایران پر روس کو یوکرین جنگ میں استعمال کے لیے بیلسٹک میزائیل کی فراہمی کے الزام میں مزید پابندیوں کو اعلان کیا ہے جبکہ تہران اپنی اقتصادی ترقی کے لیے خطے میں تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوششیں آگے بڑھا رہا ہے۔
پاکستان اور ایران میں ادھورے گیس پائپ لائن منصوبے پر تازہ ترین تنازعہ نے جہاں پاکستان کے توانائی کے بحران پر مزید توجہ مرکوز کی ہے وہیں بین الاقو امی امور کے ماہرین اسے اسلام آباد کے وسیع تر خارجہ پالیسی تناظر میں ایک اہم موقع کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے استعمال نے جہاں تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں وہیں تازہ ترین جائزوں کے مطابق مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔
سوال یہ اٹھتا کہ اگر امریکہ اور دیگرمغربی ممالک افغانستان کو سفارتی طور پر تنہا چھوڑنے کی بجائے اس سے کسی صورت میں تعلقات بناتے تو کیا مذاکرات یا معاشی امداد کے ذریعہ طالبان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے تھے؟
مزید لوڈ کریں