Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
حملے کا نشانہ بننے والوں کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے اور پو لیس حکام نے اس واقعہ کو فرقہ ورانہ تشدد کی کڑی قرار دیا ہے۔
اعلیٰ حکام نے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے کلے خیزی میں ہلاک کیے گئے مشتبہ افراد کے پاس دستی بم موجود تھے اور اُنھوں نے بظاہر اپنے جسم سے بارودی مواد بھی باندھ رکھا تھا۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے کہا کہ ایچ آر سی پی نے اپنی جائزہ رپورٹ مرتب کرتے وقت سرکاری موقف معلوم نہیں کیا۔
ہڑتال کے موقع پر کسی بھی نا خو شگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے کوئٹہ شہر اور مضافاتی علاقوں میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے
ہزارہ ٹاؤن کے گراؤنڈ میں سو سے زائد افراد ورزش اور فٹبال کھیلنے میں مصروف تھے جب دو گاڑیوں پر سوار حملہ آوروں نے وہاں پہنچ کر پہلے اُن پر ایک راکٹ داغا
بلوچستان کے ضلع سبی میں نامعلوم افراد نے مسافر بس پر پیٹرول چھڑک کر اسے آگ لگا دی۔
زخمیوں میں ڈی آئی جی آپریشنز وزیر خان اور اُن کے دو بچے بھی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک بچہ اور ایک پولیس اہلکار شامل ہے۔
صوبے میں کانوں کے سینئر معائنہ کار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ 36 گھنٹے گزرجانے کے بعد کان میں موجود باقی 25 افراد کے بچ جانے کی اُمید بہت کم ہے۔
مرنے والوں میں فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن کے سات ، نیشنل ہائے وے کے تین اور ایک سویلین شامل ہیں
واقعات کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں ہونے والے بیشتر واقعات کی ذمہ داری ایک کالعدم بلو چ عسکر ی تنظیم ، بلو چ ری پبلکن آرمی قبول کر تی رہی ہے ۔
حکام نے بتایا ہے کہ جعفرآباد کو ضلع جھل مگسی سے ملانے والے سرحدی علاقے میں منگل کو علی الصباح فرنٹیئر کور (ایف سی) اور انسداد دہشت گردی فورس کی مدد سے پولیس نے ایک آپریشن کر کے دونوں جج صاحبان کو بازیا ب کرایا۔
1978ء میں ڈیرہ بگٹی میں ڈائینوسار کے آثار دریافت ہوئے تھے جوساڑھے تین کروڑ سال پرانے ہیں.
جھل مگسی کے ڈپٹی کمشنر شوکت مرغزانی کوپانچ سرکاری محافظوں اور ایک سرکاری عہدیدار سمیت نامعلوم افراد نے 31جنوری کو ضلع بولان سے اغواء کیا تھا۔
علاقے میں گذشتہ دو روز سے بارش اور برفباری کا سلسلہ جاری ہے اور کان میں حادثے کی وجہ بھی بظاہر پانی کا رساؤ ہی ہے۔
اکثر حملوں کا ہدف حکومت کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران ہیں۔
قافلہ جب درگی کے قریب پہنچا تو پہلے سے گھات لگائے ہوئے تین مو ٹر سائیکلوں پر سوار نا معلوم مسلح افراد نے گاڑیوں پر خو د کارہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ شر وع کر دی۔
پولیس کی ایک گاڑی جب ایس پی شعبان علی کو اُن کے گھر سے دفتر لے جانے کے لیے پہنچی تو پہلے سے کھڑی ایک گاڑی میں نصب باردو میں ریموٹ کنٹرول سے یہ دھماکا کیا گیا۔
حکام کے مطابق علاقے میں موجود دوسرے کنوؤں اور پائپ لائنوں سے گیس کی فراہمی جاری ہے تاہم دو پائپ لائنوں کو ہونے والے نقصان سے مجموعی سپلائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
جمہوری وطن پارٹی کے صوبائی صدر کو ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں گذشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا
مزید لوڈ کریں