جیولاجیکل سر وے آف پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر نذ ر السلام نے کہا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے زندگی کی کئی جہتوں کے تاریخی آثار ملے ہیں ان پر ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے میں زندگی کی ابتدا چووّن کروڑ سال پہلے ہوئی تھی جس کو کیمبرین کا زمانہ کہتے ہیں ۔ کیمبرین کے بعد دوسرا زمانہ جیوراسک کا ہے اس دور کے ڈائینوسار کے آثار بھی2002ء میں بلوچستان کے ضلع لورالائی میں دریافت ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے 1978ء میں ڈیر ہ بگٹی اور آزاد کشمیر میں ڈائینوسار کے آثار دریافت ہوئے تھے جوساڑھے تین کروڑ سال پرانے ہیں اور یہ اُس وقت کا سب سے بڑا جانور تھا ۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُس وقت کے ڈائینوسارڈھانچہ میوزیم میں موجو د ہے جس کی اُونچائی تیس سے چالیس فٹ تھی اور خوراک کی کمی کے باعث اس کی نسل معدوم ہو گئی اس کے علاوہ بلوچستان میں بلوچی Thorium ہاتھی اور Striod کے آثار بھی ملے ہیں یہ تقر یباً بیس سے تیس لاکھ سال پرانے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لورالائی سے ڈائینو سار کے جو آثار ملے ہیں وہ تقر یباً ساڑھے چھ کروڑ سال پرانے ہیں۔اس کی کئی اقسام دریافت ہوئی ہیں جن کے نمونے تجزیے کے لیے بیرون ملک بھیج دئیے گئے ہیں اور اب بھی اس پر تحقیق ہو رہی ہے، ماہر ین اس پر اب تک بیس سے زائد مکالے لکھ چکے ہیں جن کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہو تاہے کہ اُس دور میں یہاں جغرافیائی اور موسمی حالات کیسے تھے ۔
اس سے پہلے پاکستان کے کسی علاقے سے ڈائینوسار دریافت نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ براعظم اُس وقت بھی آپس میں جڑے ہوئے تھے مگر جب خوراک کم ہوگئی تو ان کی نسلیں ختم ہو تی گئیں۔
انھو ں نے کہا کہ فی الحال صوبے میں بدامنی اور مناسب فنڈز نہ ہونے کے باعث تحقیق کا کام نہیں ہو رہا لیکن ادارے کے ماہرین صوبے کے مختلف علاقوں سے تاریخی آثار جمع کر کے امر یکہ ، بر طانیہ ، چین اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں کو بھیج دیتے ہیں جن کے مقالے مختلف بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں ۔
انھو ں نے کہا کہ اگر فنڈز فراہم کئے جائیں تو ژوب ، لورالائی ، کوہلو، بارکھان ، ڈیرہ بگٹی، لس بیلہ ،خضدار کے اضلاع میں تاریخی آثار ہیں جن پر کام کیا جاسکتا ہے۔