یہ دھماکا پشاور میں بشیر آباد کے علاقے میں ہوا، جہاں سے فرنٹئیر کانسٹیبلری کی ایک گاڑی گزر رہی تھی کہ دیسی ساخت کا ایک طاقتور بم دھماکا ہوا۔
پشتو کے مشہور گلوکار خیال محمد کو میر باچا خان قومی ایوارڈ پشتو موسیقی میں ان کے خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے سربراہ زرعلی خان آفریدی نے وائس آف امریکہ امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس فیصلے سے قبائلی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا
شربت گلہ کو گزشتہ ہفتے پشاور کی ایک ذیلی عدالت نے پاکستان کا جعلی شناختی کارڈ بنوانے کے جرم میں 15 دن قید اور ایک لاکھ 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
جمرود سے تعلق رکھنے والے منظور آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئے روز سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور سڑک کی بندش سے مقامی لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے جن کے تدارک کے لیے حکام کو مناسب اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
سکیورٹی فورسز نے یہاں کرفیو نافذ کرنے تلاشی کی کارروائیاں جاری رکھی تھیں اور ایک روز قبل ہی سلطان بازار میں واقع المحب مارکیٹ کو انتظامیہ نے قبائلی علاقوں میں رائج قانون کے تحت دھماکا خیز مواد لگا کر تباہ کر دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نوشین فاطمہ کا کہنا تھا کہ 2011ء میں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔
شربت گلہ اپنے خاندان کے ہمراہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان میں بطور پناہ گزین مقیم ہیں۔
اپنے گھروں کو واپس جانے والے بظاہر خوش ہیں لیکن ان کی طرف سے شکایات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے جن میں خاص طور پر سرد موسم میں جنوبی وزیرستان میں بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کا تذکرہ غالب ہے۔
سماجی تنظیموں سے وابستہ ایک تجزیہ کار زر علی خان آفریدی کا کہنا ہے کہ داعش کا اس خطے میں وجود ہے اور یہ بلاشبہ ایک خطرے کی بات ہے۔
حکام کو اطلاع ملی تھی کہ اکبر علی چند دیگر مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ایک احاطے میں موجود ہے۔ جب سکیورٹی اہلکار وہاں پہنچے اور انھوں نے مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے متنبہ کیا تو اس نے فائرنگ شروع کر دی۔
پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ انھیں اطلاع ملی تھی کہ مشتبہ عسکریت پسند پلوسی کے علاقے میں داعش سے متعلق تشہیری مواد تقسیم کر رہے ہیں۔
کرم ایجنسی سے افغانستان جانے والے سرحدی راستے کی بندش سے دونوں جانب لوگ اور تاجر پریشان ہیں۔
حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز کی بھرپور کارروائیوں میں قبائلی علاقوں سے شدت پسندوں کو مار بھگایا گیا جب کہ جرائم پیشہ عناصر کی بھی بیخ کَنی کا بتایا گیا۔
حکام نے تحصیل باڑہ میں کوہی شیر حیدر ڈگری کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کو ستمبر 2009ء میں کالعدم گروپوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد بند کر دیا تھا۔
اگسٹن جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صورتحال کی سنگینی کا تذکرہ کرتے بتایا کہ اب مردوں کو دفن کرنے کے لیے پرانی قبروں کو کھود کر ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس راستے کے کھلنے سے تجارتی سرگرمیاں جلد مکمل طور پر بحال ہو جائیں گی، جس سے عام لوگوں کی مشکل میں کچھ کمی آئے گی۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر سکیورٹی فورسز نے کارروائیاں کر کے دہشت گردی کے 14 واقعات کو رونما ہونے سے روکا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے بتایا کہ اب تک ساڑھے آٹھ ہزار خاندانوں کے کوائف حاصل ہو سکے ہیں۔
مزید لوڈ کریں