افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں حکام نے تقریباً سات سال کے بعد دور افتادہ وادی تیراہ کو جمرود اور باڑہ سے ملانے والی دو سڑکیں عام آمدورفت کے لیے کھول دی ہیں۔
باڑہ، شین قمر اور چورا، جمرود سڑکوں کو 2009ء میں اس وقت عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا جب وادی تیراہ میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سکیورٹی فورسز نے کارروائی شروع کی تھی۔
یہ سڑکیں ماضی میں عام لوگوں کی آمدورفت کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیر قانونی تجارت کرنے والوں کے زیر استعمال بھی رہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز کی بھرپور کارروائیوں میں قبائلی علاقوں سے شدت پسندوں کو مار بھگایا گیا جب کہ جرائم پیشہ عناصر کی بھی بیخ کَنی کا بتایا گیا۔
اسی بنا پر ان علاقوں سے نقل مکانی کر جانے والوں کی واپسی اور یہاں بحالی و تعمیر نو کی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد یہاں بتدریج معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے ولے ایک مقامی قبائلی راہنما شاہ فیصل آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اور سڑکیں دوبارہ کھلنے سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس علاقے میں امن کی فضا برقرار ہے۔
"یہ سڑکیں کھلی ہیں یہ عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کیونکہ کافی لوگ رہتے ہیں وہاں بھی اس کے کھلنے سے عوام کو آمدورفت میں سہولت رہے گی۔ ہم حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ امن کی طرف مزید پیش رفت کرے اور جو علاقے ابھی بھی عوام کی رسائی میں نہیں وہاں بھی رسائی دی جائے۔"
حال ہی میں باڑہ میں قائم ایک ڈگری کالج کو بھی سات سال کے بندش کے بعد دوبارہ کھولا گیا تھا جب کہ باڑہ بازار میں بھی تجارتی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔
خیبر ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں کئی ترقیاتی منصوبے بھی شروع ہیں جن کی تکمیل سے مقامی آبادی کی مشکلات کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔