افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں ایک ڈگری کالج سات سال کی بندش کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا اور یہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
حکام نے تحصیل باڑہ میں کوہی شیر حیدر ڈگری کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کو ستمبر 2009ء میں کالعدم گروپوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد بند کر دیا تھا۔
گزشتہ چھ سالوں میں شدت پسندوں نے یہاں تعلیمی اداروں کو بھی بم دھماکوں سے نقصان پہنچایا اور یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لگ بھگ 100 اسکول مکمل جب کہ 50 جزوی طور پر تباہ ہو گئے تھے۔
ملک دین خیل کے علاقے میں قائم یہ کالج پورے باڑہ سب ڈویژن میں واحد ڈگری کالج ہے۔
کالج کے ایک پروفیسر گل وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ چھ برسوں سے طلبا کے لیے پشاور کے مضافاتی علاقے پشتہ خرہ میں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی گئیں لیکن اب دوبارہ سے وہ اپنے کالج میں واپس آگئے ہیں۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان سات سالوں کے دوران کالج کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی بحالی میں وقت لگے گا۔
"عمارت کا صرف ڈھانچہ ہی رہ گیا تھا باقی جو سامان وغیرہ تھا لیبارٹری کے آلات تھے وہ تو باقی نہیں رہے تھے لیکن اب دوبارہ کام شروع کر دیا گیا ہے وقتی طور پر کچھ آلات بھی مہیا کیے گئے ہیں۔"
پروفیسر گل وزیر نے بتایا کہ فی الوقت یہاں دو کلاسز ہو رہی ہیں لیکن ان کے بقول کالج کی بحالی کے بعد ان کا اندازہ ہے کہ یہاں طلبا کی تعداد لگ بھگ ایک ہزار تک پہنچ جائے گی۔
کالج کے ایک طالب علم عابد آفریدی کہتے ہیں کہ ڈگری کالج دوبارہ کھلنے سے علاقے کے طلبا بہت خوش ہیں۔
"علاقے میں بہت خوشی ہے۔ اس خوشی میں ہم طلبا نے ریلی بھی نکالی ہے۔"
قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث یہاں تعلیمی شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا لیکن سکیورٹی فورسز کی طرف سے آپریشنز میں ان علاقوں سے شدت پسندوں کو مار بھگانے کے بعد حالات معمول کی طرف آنا شروع ہوئے۔
فاٹا کے لیے تعلیمی ڈائریکٹوریٹ نے گزشتہ سال سے باڑہ میں بتدریج تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کی سرگرمیاں بحال کرنا شروع کی تھی۔