پاکستان کے شمال مغرب میں واقع وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں تاحال اتفاق رائے ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور اس کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں انضمام سے متعلق بھی واضح اختلافات بدستور موجود ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مشیر خارجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے متعلقہ قبائل سے مشاورت کے بعد اپنی سفارشات تیار کر کے رپورٹ پیش کر دی تھی اور اس میں قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخواہ میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا۔
تاہم اس انضام کی جہاں سیاسی جماعتوں کی اکثریت حمایت کر رہی ہے وہیں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بعض سرکردہ قبائلی راہنما مخالفت بھی کر رہے ہیں۔
لیکن قبائلی خواتین کی ایک نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سارے مباحثے اور عمل میں خواتین کو نہ تو مشاورت میں شامل کیا گیا اور نہ ہی ان کے مسائل کو کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔
اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی نوشین فاطمہ "تکڑا قبائلی خوئندے" نامی تنظیم کی عہدیدار ہیں جو قبائلی خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے کام کرتی آ رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 2011ء میں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔
"سب سے زیادہ متاثر عورت ہوئی وہ دہشت گردی ہو یا اس کے خلاف جنگ پھر عورت کو ہی سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے۔ حکام ہماری بات نہیں سنتے۔۔۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہاں 1973ء کے پاکستان کے آئین کو نافذ کیا جائے اور فاٹا کا انضمام خیبرپختونخواہ میں کیا جائے۔"
نوشین فاطمہ کہتی ہیں کہ قبائلی علاقوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایک علیحدہ صوبے کے طور پر کام کر سکے۔
تاہم خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ قبائلی راہنما اور سابق وفاقی وزیر حمید اللہ جان آفریدی اس انضام کے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ خیبرپختونخواہ خود ایک پسماندہ صوبہ ہے جس میں پشاور کے علاوہ اس شہر جیسی سہولتیں صوبے کے دیگر اضلاع میں موجود نہیں اور اگر فاٹا کو بھی اس میں شامل کر دیا جاتا ہے تو اس پر مزید بوجھ پڑ جائے گا۔
"سیاسی جماعتیں تو اس لیے یہ انضمام چاہتی ہیں کہ ان کو اور زیادہ علاقہ مل جائے گا انھیں اور نشسیں مل جائیں گی لیکن قبائل اب ترقی چاہتے ہیں۔ قبائلیوں کی منتخب کونسل ہونی چاہیئے یہاں ایک کروڑ کی آبادی ہے اور یہ کسی طور بھی اپنے رواک کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ انضام سے اور مسائل بڑھیں گے۔"
مختلف حلقوں کی طرف سے ایسی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں کہ فاٹا کے مستقبل کے بارے میں قبائلیوں سے ریفرنڈم کروا لیا جائے۔