رسائی کے لنکس

مصطفیٰ عامر کیس: لرزہ خیز قتل اور ڈرگ کارٹیل سے جڑے انکشافات


  • پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کیس میں غیر ملکی کورئیر کمپنی سمیت دو کمپنیوں کو بھی شامل تفتیش کیا جا رہا ہے۔
  • پولیس حکام کی جانب سے شئیر کی گئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ 23 سالہ مقتول مصطفیٰ عامر کو اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے کورئیر کمپنی کے ذریعے منشیات اسمگلنگ کے الزام کے تحت گزشتہ سال گرفتار بھی کیا تھا۔
  • تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اس قتل کے پیچھے ایک لڑکی ہے اور ارمغان کی دوستی بھی کارفرما تھی۔مقتول مصطفیٰ عامر بھی اس دوستی کے بارے میں جانتا تھا۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ شہر میں بالخصوص پوش علاقوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کے نوجوانوں پر پڑنے والے اثرات کو ظاہر کر رہا ہے۔

کراچی -- پاکستان کے شہر کراچی میں مصطفیٰ عامر نامی نوجوان کا لرزہ خیز قتل اور اس سے جڑی کئی کہانیاں میڈیا اور سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث ہیں۔

آٹھ جنوری کو بلوچستان کے ضلع حب میں قتل کیے گئے مصطفیٰ عامر کے کیس کے مرکزی ملزم ارمغان قریشی کے بارے میں پولیس چالان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ارمغان متعدد بار کورئیر سروس کے ذریعے منشیات منگوا چکے ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ منشیات شہر کے پوش علاقوں میں چلنے والے کیفیز اور مختلف پارٹیوں میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ارمغان قریشی اپنے والد کے نام پر بھی منشیات منگواتا رہا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ غیر ملکی کورئیر کمپنی سمیت دو مزید کمپنیوں کو بھی شامل تفتیش کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ شہر اور بالخصوص پوش علاقوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور نوجوانوں پر اس کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

کیس ہے کیا؟

آٹھ فروری کی شب پولیس کو کراچی کے علاقے گزری میں ایک بنگلے پر چھاپے کے دوران مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس کے اینٹی وائلنٹ سیل نے مبینہ طور پر اغوا کاروں کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا تھا۔ بنگلے سے فائرنگ کے نتیجے میں ڈی ایس پی سمیت دو اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ بہرحال کچھ دیر بعد پولیس بنگلے میں موجود واحد ملزم ارمغان قریشی کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

لیکن رفتہ رفتہ جب ملزم کی گرفتاری اور اس سے جڑے دیگر واقعات سامنے آئے تو کئی خوف ناک اور تہلکہ خیز انکشافات ہونا شروع ہوئے۔

پولیس نے جنوری میں اغوا ہونے والے 23 سالہ مصطفیٰ عامر کی بازیابی کے لیے یہ چھاپہ مارا تھا۔

مصطفیٰ کی والدہ وجیہہ عامر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے شوہر ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ ان کا مقتول بیٹا بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں فائنل ائیر کا طالبِ علم تھا اور اس کےبہت سارے دوست تھے۔

اُن کے بقول مصطفیٰ نے اپنے والد سے بہت زیادہ خواہش کرکے ٹویوٹا 'مارک ایکس' کی مہنگی گاڑی خریدی تھی۔

مصطفیٰ کی والدہ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ مصطفیٰ کی گاڑی قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی تھی کیوں کہ اس کی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ تھی اور شیشے بھی کالے تھے۔

وجیہہ عامر کا کہنا تھا جب ان کا بیٹے سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا تو انہوں نے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کیا جہاں بہت مشکل سے ایف آئی آر درج ہوئی۔

ان کے بقول تیسرے روز ہی مصطفیٰ کے بعض دوستوں نے بتایا کہ وہ ارمغان قریشی نامی لڑکے کے ساتھ تھا۔ لیکن بقول وجیہہ عامر پولیس نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔

مقتول کی والدہ کے مطابق ان کے بیٹے اور ملزم ارمغان کے درمیان کوئی خاص دوستی نہیں تھی۔ لیکن وہ اس بات سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہیں کہ ان کا بیٹا کیوں اس شام ارمغان کے گھر گیا تھا۔

مصطفیٰ کی والدہ کے مطابق گم شدگی کے کچھ روز بعد اسے مختلف بین الاقوامی نمبروں سے تاوان کی ادائیگی کے لیے پیغامات موصول ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کیس اسپیشل انویسٹی گیشن سیل کو بھیج دیا گیا۔ جہاں سے اس کیس کو ٹریس کیا گیا اور ملزم کی گرفتاری ممکن ہوئی۔

والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ارمغان کے سامنے دبتا نہیں تھا۔ ان کے بقول ارمغان نے ان کے بیٹے کو نفرت اور حسد کے باعث انتہائی سفاکی سے قتل کیا اور اسے اس قتل کی جانب مائل کرنے میں دیگر لڑکے لڑکیوں کا کا بھی ہاتھ تھا۔

مقتول اور ملزم دونوں منشیات اسمگلنگ سمیت کئی کیسز میں نامزد

پولیس حکام کی جانب سے شئیر کی گئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ 23 سالہ مقتول مصطفیٰ عامر کو اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے کورئیر کمپنی کے ذریعے منشیات اسمگلنگ کے الزام میں گزشتہ سال گرفتار بھی کیا تھا۔

اس کیس میں وہ ضمانت پر تھا۔ پولیس کے مطابق ضمانت پر رہائی کے بعد بھی وہ منشیات اسمگلنگ کا کام کرتا تھا اور اس مقصد کے لیے مصطفیٰ عامر رابطے کے لیے اپنے فون میں سم کے بجائے صرف انٹرنیٹ استعمال کرتا تھا۔

دوسری جانب کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے خلاف ایک درجن کے قریب مختلف مقدمات درج ہیں جن میں منشیات کا استعمال، لڑائی جھگڑے اور اقدام قتل کی دفعات بھی شامل ہیں۔

'ایک ایمو جی مصطفیٰ عامر کے قتل کی بنیاد بنی'

تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ارمغان اور مصطفیٰ کے درمیان ایک لڑکی سے دوستی اور تعلق پر ہونےو الے تنازع بھی اس قتل کے محرکات میں شامل ہے۔

حکام نے بتایا کہ مصطفیٰ عامر نے ارمغان کو ایک ایموجی بھیجی تھی جس کی وجہ سے دونوں کی رنجش میں اضافہ ہوا اور ارمغان طیش میں آگیا ۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ ارمغان کے گھر سے ملنے والے ڈی این اے سیمپلز میں ایک کے ذریعے پولیس مذکورہ لڑکی تک پہنچی۔

پولیس کو شک ہے کہ اس واقعے سے قبل لڑکی کو اغوا کرکے اسے اسی بنگلے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اس سے مبینہ طور پر زیادتی کی کوشش بھی کی گئی۔ تاہم پولیس اس بارے میں مزید تفتیش کر رہی ہے۔

ڈی آئی جی کے مطابق اس کیس سے متعلق کافی ٹھوس شواہد جمع کر لیے گئے ہیں۔

ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق قتل کی اصل وجہ مصطفیٰ عامر کے خلاف ارمغان کی ذاتی رنجش اور غصہ ہی بنا۔

ان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کو اس کے دوستوں میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا اور یہی بات ارمغان کو بری لگتی تھی اور وہ اس کا اظہار کئی بار مختلف مواقع پر کرتا رہا تھا۔

مصطفیٰ کے قتل کے عینی شاہد نے پولیس کو کیا بتایا؟

پولیس کے اینٹی وائلنٹ سیل حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس میں قتل کا واحدعینی گواہ ارمغان کا ایک اور دوست شیراز تھا جس کے سامنے سارا واقعہ رونما ہوا۔

شیراز نے پولیس کو بتایا کہ ارمغان نے مصطفیٰ کو اپنے گھر بلایا جہاں دونوں نے مل کر منشیات استعمال کی اور پھر ارمغان نے مصطفیٰ کو لوہے کی سلاخ سے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس کے بعد اسے انتہائی زخمی حالت میں اسی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے ضلع حب میں دور دراز مقام پر لے گیا۔

شیراز کے مطابق مصطفیٰ اس وقت زخمی تھا اور اس کی جان بچائی جاسکتی تھی لیکن ارمغان نے مصطفیٰ کو گاڑی سمیت جلا دیا۔

لیکن ارمغان قریشی کے والد کامران اصغر قریشی کا دعویٰ ہے کہ ان کا بیٹا مصطفیٰ کے اغوا یا قتل میں ملوث نہیں ہے۔

کامران قریشی نے اقرار کیا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ اس کا بیٹا نشے کا عادی تھا۔ لیکن اس نے اسے ایسا کرنے سے نہیں روکا۔

کامران اصغر کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا اپنے ٹیلنٹ اور محنت سے کم وقت میں اعلیٰ لائف اسٹائل اپنانے میں کامیاب ہوا تھا۔

ارمغان کو ابتدائی طور پر عدالت میں ریلیف کیسے ملا؟

آٹھ فرروری کو پولیس کی جانب سے ارمغان کو گرفتار کرنے کے بعد جب انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج کے پاس پیش کیا گیا تو جج نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ دینے کے بجائے اسے پولیس تشدد کی شکایت پر جیل بھیجنے کا کم دےد یا۔

قانونی امور سے واقفیت رکھنے والے کئی ماہرین اور صحافیوں نے اس پر حیرانی کا بھی اظہار کیا اور اسے مبینہ طور پر دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔

صوبائی حکومت نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے کے فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا اور قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریمانڈ کے وقت ملزم کے والد کامران قریشی منتظم جج کے چیمبر ہی میں موجود تھے۔

اب سندھ ہائی کورٹ نے تحریری حکم میں ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔

یہ بھی کہا ہے کہ منتظم جج سید ذاکر حسین کو جے آئی ٹی تشکیل دینے کے احکامات کا بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے منتظم جج سے اختیارات واپس لیے جائیں اور عوامی مفاد اور انصاف کے لیے منتظم جج کے اختیارات کسی اور عدالت کو دیے جائیں گے۔

ارمغان قریشی کے زیر استعمال گھر خالی کرانے کی درخواست

ادھر علاقے کے رہائشیوں نے 21 فروری کو ڈیفنس اتھارٹی کو لکھے گئے خط میں درخواست کی ہے کہ ارمغان کا گھر خالی کروایا جائے۔

ایک رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس گھر میں کافی عرصے سےغیر قانونی سرگرمیاں دیکھی جارہی تھیں۔

رہائشی کے مطابق گھر سے ہوائی فائرنگ کی جاتی تھی اور اس بارے میں ڈی ایچ اے انتظامیہ اور پولیس کو متعدد شکایات کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا جس کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

رہائشیوں کی جانب سے درج شکایت میں کہا گیا ہے کہ 30سالہ ارمغان نے 100 کے قریب سیکیورٹی گارڈز رکھے ہوئے تھے جو علاقے کے آنے جانے والے لوگوں کو ہراساں کرتے تھے۔ گھر کے اندر سے تیز میوزک کی آوازیں آنا معمول کی بات تھی اور گھر کے احاطے میں مبینہ طور پر شیر کے بچے بھی رکھے گئے تھے۔

تفتیشی حکام کی مزید تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ خیابان مومن ڈیفیس میں موجود یہ گھر کرائے پر حاصل کیا گیا تھا اور اس کا مالک ملک سے باہر ہے۔

معروف اداکار کا بیٹا ارمغان کو منشیات سپلائی کرتا تھا: پولیس کا الزام

اسی کیس میں پولیس نے معروف اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کو بھی گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم ارمغان قریشی کو منشیات سپلائی کرتا تھا اور اس کے پیسے اپنے والد کے مینیجر کے اکاونٹ میں منگواتا تھا۔

پولیس حکام کے مطابق ملزم کے قبضے سے لاکھوں روپے مالیت کی غیر ملکی منشیات بھی برآمد ہوئی ہیں۔

عدالت نے مزید تفتیش کے لیے ساحر حسن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا ہے جب کہ پولیس کیس کی کے لیے مزید مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

تفتیشی حکام کے مطابق ماڈلنگ سے منسلک رہنے والے ساحر حسن کے بقول اس سے منشیات لینے والوں میں بڑے نامی گرامی لوگ بھی شامل تھے۔

تفتیشی حکام کے بقول ساحر کا کہنا ہے کہ وہ اب تک کروڑوں روپے کی منشیات لوگوں کو بیچ چکا ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک میں کام کرنے والی نامور کورئیر کمپنیوں کی مدد سے منشیات کی ترسیل کی جاتی ہے۔

'کیس معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے'

اس واقعے پر گہری نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ شہر کی پوش آبادیوں میں منشیات کا کاروبار کس حد تک سرایت کرچکا ہے اور کم عمر نوجوان لڑکے لڑکیاں ان برائیوں کا شکار ہو کر نفرت اور جرائم کی دنیا میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

انگریزی روزنامہ' دی نیوز 'سے منسلک صحافی فراز خان کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجوان منشیات کی لت میں کافی عرصے سے پڑے ہوئے تھے اور یہ منظم انداز سے کام کرتے تھے۔لیکن آپس کے اختلافات کی وجہ سے بات نفرت پھر لڑائی اور پھر قتل تک جاپہنچی۔

اُن کے بقول منشیات کا یہ منظم دھندا پولیس اور دیگر قانونی نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے ہوتا رہا جس میں ان اداروں کے اہل کار ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ تعجب کی بات ہے کہ ارمغان کے گھر پر چلنے والا غیر قانونی کال سینٹر بھی متعلقہ حکام کی نظروں سے اوجھل رہا ۔ اس کال سینٹر سے ملنے والے لیپ ٹاپس میں کیا تھا اس کا ڈیٹا اکٹھا کرنے میں کئی ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

فراز خان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کو قتل کرنے کے بعد بھی ارمغان بڑے آرام سے اپنے گھر میں ڈیڑھ ماہ بیٹھا رہا اس دوران اس نے نہ ہی اپنا اسلحہ چھپایا اور نہ ہی ملک یا گھر چھوڑ کر کہیں گیا۔

اُن کے بقول یقیناً ملزم کو اس بات کا زعم تھا کہ وہ قانون کی پہنچ میں نہیں آ سکتاجب کہ پولیس نے جب چھاپہ مارنا چاہا تو وہ چار گھنٹے تک مزاحمت کرتا رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ آخر کون تھا جو اسے اس وقت پولیس سے لڑنے کا حوصلہ دے رہا تھا؟

فراز خان کے بقول اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قدر کم عمر ی میں ملزم طاقت ور اور پُر اعتماد تھا کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تاہم گرفتاری کے بعد اب دیکھنا ہے کہ پولیس اپنا کیس کیسے پیش کرتی ہے اور اس کیس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG