وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نوشین فاطمہ کا کہنا تھا کہ 2011ء میں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔
شربت گلہ اپنے خاندان کے ہمراہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان میں بطور پناہ گزین مقیم ہیں۔
اپنے گھروں کو واپس جانے والے بظاہر خوش ہیں لیکن ان کی طرف سے شکایات کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے جن میں خاص طور پر سرد موسم میں جنوبی وزیرستان میں بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کا تذکرہ غالب ہے۔
سماجی تنظیموں سے وابستہ ایک تجزیہ کار زر علی خان آفریدی کا کہنا ہے کہ داعش کا اس خطے میں وجود ہے اور یہ بلاشبہ ایک خطرے کی بات ہے۔
حکام کو اطلاع ملی تھی کہ اکبر علی چند دیگر مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ایک احاطے میں موجود ہے۔ جب سکیورٹی اہلکار وہاں پہنچے اور انھوں نے مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے متنبہ کیا تو اس نے فائرنگ شروع کر دی۔
پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ انھیں اطلاع ملی تھی کہ مشتبہ عسکریت پسند پلوسی کے علاقے میں داعش سے متعلق تشہیری مواد تقسیم کر رہے ہیں۔
کرم ایجنسی سے افغانستان جانے والے سرحدی راستے کی بندش سے دونوں جانب لوگ اور تاجر پریشان ہیں۔
حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز کی بھرپور کارروائیوں میں قبائلی علاقوں سے شدت پسندوں کو مار بھگایا گیا جب کہ جرائم پیشہ عناصر کی بھی بیخ کَنی کا بتایا گیا۔
حکام نے تحصیل باڑہ میں کوہی شیر حیدر ڈگری کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کو ستمبر 2009ء میں کالعدم گروپوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد بند کر دیا تھا۔
اگسٹن جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صورتحال کی سنگینی کا تذکرہ کرتے بتایا کہ اب مردوں کو دفن کرنے کے لیے پرانی قبروں کو کھود کر ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ اس راستے کے کھلنے سے تجارتی سرگرمیاں جلد مکمل طور پر بحال ہو جائیں گی، جس سے عام لوگوں کی مشکل میں کچھ کمی آئے گی۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر سکیورٹی فورسز نے کارروائیاں کر کے دہشت گردی کے 14 واقعات کو رونما ہونے سے روکا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے بتایا کہ اب تک ساڑھے آٹھ ہزار خاندانوں کے کوائف حاصل ہو سکے ہیں۔
گورنر خیبرپختونخواہ کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں بحالی و تعمیر نو کا کام بھی جاری ہے اور نقل مکانی کرنے والے باقی ماندہ خاندانوں کی واپسی نومبر کے اواخر تک مکمل کر لی جائے گی۔
اس سے قبل بھی ان علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور ان کی چوکیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں جن میں مقامی عسکریت پسندوں کے علاوہ سرحد پار سے بھی شدت پسند بھی کارروائی کرتے رہے ہیں۔
فاٹا سیاسی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کا اصرار ہے کہ قبائلی علاقوں کو فوری طور پر صوبے میں ضم کیا جائے اور ان کے بقول اس سے قبائلیوں کے اکثر مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔
تشدد کے تازہ واقعات سے قبل جمعہ کو خیبرپختونخواہ ہی کے ضلع مردان میں ایک خودکش بم دھماکا ہوا تھا جس میں پولیس اہلکاروں اور وکلا سمیت کم ازکم 13 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
وزیراعلیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق اندراج شدہ افغانوں کو رواں سال کے اواخر تک ملک میں رہنے کی اجازت ہے جب کہ غیر اندراج شدہ افغان شہریوں کو 15 نومبر تک دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر گرفتاری یا مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
مزید لوڈ کریں