پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام میں سرکاری طور پر چھ ماہ کی توسیع تو کر دی گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں غیرقانونی طور پر بغیر اندراج کے رہنے والوں کے خلاف پولیس کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
ایسے میں ایک اہم قوم پرست رہنما کی طرف سے خیبر پختونخواہ کو افغانستان کا حصہ قرار دینے کے بیان پر صوبائی حکومت کے علاوہ انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے ایک افغان اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ خیبر پختونخواہ افغانوں کا ہے اور وہ کسی کو افغان پناہ گزینوں کو ان کے بقول اپنی سرزمین پر ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
گو کہ بعد میں محمود اچکزئی کی طرف سے یہ وضاحت بھی سامنے آئی کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا لیکن ان پر تنقید کا سلسلہ جمعہ کو بھی دیکھنے میں آیا۔
خیبرپختونخواہ کی حکومت کے مشیر اطلاعات مشتاق غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایک ایسا پاکستانی جو کہ پارلیمان کا بھی رکن ہو اس کی طرف سے اس طرح کا بیان ملکی سالمیت کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
"یہ (خیبرپختونخواہ) پاکستان کا حصہ ہے، پاکستانیوں کا ہے، افغان جب تک یہاں رہیں گے یہ مہاجر کی حیثیت سے رہیں گے پھر انھیں اپنے ملک واپس جانا ہے۔"
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق محمود اچکزئی نے اپنی وضاحت میں کہا کہ افغان شہری اقوام متحدہ کے ساتھ پاکستان کے ایک معاہدے کے تحت یہاں رہ رہے ہیں اور انھیں تنگ نہیں کیا جانا چاہیے اور انھیں یہاں رہنے کا حق حاصل ہے۔
پاکستان میں تقریباً 15 لاکھ افغان باشندے کوائف کے اندراج کے ساتھ قانونی طور پر پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم ہیں جب کہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں افغان شہری غیر قانونی طور پر ملک کے مختلف حصوں میں رہ رہے ہیں۔
اندراج شدہ پناہ گزینوں کے پاکستان میں قیام کی معیاد 30 جون کو ختم ہو گئی تھی جس میں رواں ہفتے ہی چھ ماہ کی توسیع کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع کرنے پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا۔
ادھر پاکستان کے لیے افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے ملاقات کی جس میں صوبے میں مقیم پناہ گزینوں کی صورتحال سے متعلق امور زیر بحث آئے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ نے خطے کے وسیع تر مفاد میں پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے اندراج کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ قانونی طریقے سے رہ رہے ہیں حکومت کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن بغیر اندارج شدہ افغان پریشانی کا باعث ہیں اور ان ہی کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔