قبائلی انتظامیہ کے مطابق شلمان کے علاقے میں واقع دیہاتوں شین پوکھ اور شمسائی سے لوگوں کی نقل مکانی منگل کو دوسرے روز بھی جاری رہی
اتوار کو مشال خان کا چالیسواں ان کے آبائی شہر صوابی کے علاقے زیدا میں ہوا جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
دستی بم کے دھماکے سے اسکول کی عمارت کا مرکزی گیٹ اور چند کمروں کو نقصان پہنچا اور یہاں موجود متعدد بچے زخمی ہوگئے۔
طالبات کے وکیل کا موقف ہے کہ دوران تعلیم کالج میں ان طالبات کو ان کے باپردہ لباس کی وجہ سے مبینہ طور پر ہتک اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پہلے دھماکے سے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں بڈھ بیر تھانے کی حدود میں خٹکو پل پر محکمہ انسداد دہشت گردی کی ایک گاڑی کو بھی نامعلوم شدت پسندوں نے بم حملے سے نشانہ بنایا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس میں سکیورٹی فورسز کے بھاری نقصان کا دعویٰ کیا۔
ریلی میں شریک اکرام اللہ شاہد نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے نہ صرف مشتبہ لوگوں کے خلاف بلکہ ان کے اہل خانہ کے خلاف بھی کارروائی کی۔
قبائلی تاجروں اور کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس سرحدی گزرگاہ کے کھولے جانے سے علاقے میں تجارتی سرگرمیاں شروع ہوں گی جو یہاں کے لوگوں کی خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہیں۔
واپس آنے والے قبائلیوں کو عارضی طور پر بے گھر افراد کے لیے قائم کیمپ میں رکھا جاتا ہے جہاں سے ان کی شناخت اور دیگر کوائف کی تصدیق کے بعد انھیں شمالی وزیرستان بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک ریسٹورنٹ کے مالک عالم شیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب پہلے کی طرح چہل پہل نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے کاروبار پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔
قبائلی علاقوں میں حقوق کے لیے ایک سرگرم کارکن زر علی آفریدی کا کہنا تھا کہ تعمیر نو کے کام کو جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیے تاکہ واپس آنے والے لوگ ان علاقوں میں معمول کی زندگی گزار سکیں۔
اپنے کلمات میں، مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ’’دنیا میں نا صرف دہشت گردی اور انتہاپسندی کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ مختلف اقوام اور ملکوں کے درمیان مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں‘‘
کیلاش قبیلے کے لوگوں کی تعداد لگ بھگ چھ ہزار ہے جو کہ اپنی الگ شناخت کی وجہ سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔
پشاور کے مضافاتی علاقے چمکنی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" کے رجسٹریشن مرکز کے باہر افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ضابطے کی کارروائی کے لیے موجود تھی۔
مزید لوڈ کریں