توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مردان کی یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ اس طالب علم کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا اور ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ مشال خان توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا۔
ٹیم نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے 300 سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی ہے جو عدالت عظمیٰ میں بھی پیش کی جائے گی۔
مشال خان کو 13 اپریل کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کے ایک ہجوم نے بدترین تشدد کا نشانہ اور پھر اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
13 رکنی ٹیم کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعے سے ایک ماہ قبل یونیورسٹی میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر صابر مایار نے یونیورسٹی کے ایک ملازم سے مشال خان کو راستے سے ہٹانے کی بات کی تھی جس کی وجہ یونیورسٹی کے ایک مخصوص گروپ کو طالب علم کی سرگرمیوں سے لاحق خطرہ تھا۔
رپورٹ میں اس خطرے کے بارے میں مزید وضاحت تو نہیں کی گئی لیکن یہ بتایا گیا کہ تحقیقات سے پتا چلا کہ یونیورسٹی کے ہی ایک مخصوص گروپ نے توہین مذہب کے نام پر طلبا کو مشال خان کے خلاف اکسایا تھا۔
تحقیقاتی ٹیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹی کا انتظامی نظام درہم برہم ہے اور اس واقعے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور سکیورٹی کے عملے کی نااہلی سامنے آئی۔
مزید برآں واقعے کے دوران پولیس کے کردار پر بھی کئی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ پولیس بروقت کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔
اس سے قبل پولیس حکام بھی یونیورسٹی اور اس کے ہاسٹلز سے متعلق انتظامات میں خامیوں کی نشاندہی کر چکے ہیں۔
معروف ماہر تعلیم اور تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ان سفارشات پر عمل انتہائی ضروری ہے۔
مشال خان کے قتل کی نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی مذمت کی گئی تھی اور خاص طور پر توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمالکو روکنے کے لیے موثر اقدام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔