احتجاج کے باعث طورخم کی سرحدی گزر گاہ کے راستے سے پچھلے چار دنوں سے دو طرفہ تجارت بند ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان عام لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ جاری ہے۔
عدالت نے 25 ملزمان کو دی جانے والی تین، تین سال قید کی سزائیں ختم کرکے انہیں حفاظتی مچلکے جمع کرانے پر رہا کرنے کا حکم دیا جب کہ پانچ، پانچ سال قید پانے والے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
دھرنے میں شریک وسطی کرم کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اتوار کی رات پشاور پہنچے تھے۔
ضلع کونسل سوات نے بھی پیر کو اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں بے گناہ اور پر امن مظاہرین کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کی مذمت کی تھی اور مقدمات فوری واپس لینے اور فوجی چوکیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اطلاعات ہیں کہ دونوں تھانوں کی پولیس نے مظاہروں میں شرکت کرنے اور ان کی قیادت کرنے والے بعض افراد کو گرفتار بھی کیا ہے لیکن تاحال گرفتار ہونے والے افراد کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
گزشتہ دو روز میں قبائلی علاقوں میں عسکریت پسند مخالف اور حکومت کے حامی قبائلی رہنماؤں پر حملے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
بیرسٹر امیر اللہ خان چمکنی نے بتایا ہے کہ فی الوقت صرف بری ہونے والے ملزمان کے خلاف اپیل دائر کی گئی ہے جبکہ باقی ملزمان کو دی جانے والی سزاؤں کے خلاف آئندہ چند روز میں علیحدہ اپیل دائر کی جائے گی۔
خیبر پختون خوا اسمبلی نے خواجہ سراؤں کی سیاسی شمولیت کے حوالے سے ایک متفقہ قراداد بھی منظور کی تھی، لیکن پھر بھی اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
درخواست گزار نے اس سانحے کی عدالتی تحقیقات کے لیے بھی عدالت سے استدعا کی تھی جسے عدالت نے رد کردیا ہے۔
بدھ کو مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر ہری پور سینٹرل جیل میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور جیل کے باہر پولیس کے علاوہ فوج کے اہلکار بھی تعینات تھے۔
ادریس کا شیخ یوسف کے علاقے میں حکومتی حمایت یافتہ امن لشکر کے رکن کی گاڑی سے ٹکراو ہوا تھا جس کے نتیجے میں دونوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی۔
نواز شریف نے لوگوں کو عدل کے حصول کیلئے متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسا نظام عدل لانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جس میں تمام لوگوں کو انصاف ملے گا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت سے منسلک ایک سرکاری وکیل نے وی او اے کو بتایا ہے کہ دورانِ سماعت ملزم کی ذہنی اور جسمانی کیفیت صحیح تھی اور ملزم نے از خود اپنی صفائی میں استغاثہ اور گواہوں سے جرح کی تھی۔
حکام نے بتایا ہے کہ ایک ہی خاندان کے افراد گاڑی میں جا رہے تھے جب ان کی گاڑی سڑک میں پہلے سے نصب دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے ٹکرا گئی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران لگ بھگ 57 ملزموں اور 50 سے زیادہ گواہوں کے بیانات مکمل کیے گئے جبکہ اس دوران 57 ملزمان کے وکلاء نے بھی گواہوں پر جرح کی اور ملزمان کی صفائی میں دلائل پیش کئے۔
اورکزئی ایجنسی کی پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق ڈرون حملوں کا نشانہ افغان مہاجرین کا ایک گھر تھا جبکہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حملے حقانی نیٹ ورک کی ایک پناہ گاہ پر کیا گیا۔
مزید لوڈ کریں