صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں فوجی چوکیوں کے خلاف رواں ہفتے کیے جانے والے احتجاج کے شرکا پر غداری کے مقدمات درج کرنے کے خلاف بدھ کو ملاکنڈ ڈویژن میں وکلا نے احتجاجاً عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سوات بینچ کے صدر شمشیر علی خان ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مینگورہ، خوازہ خیلہ اور مٹہ میں پرامن اور بے گناہ مظاہرین کے خلاف حکومت نے غداری کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں جو سرا سر ناانصافی اور ظلم ہے۔
انھوں نے کہا کہ وکلا کے احتجاج کے دوران ان کی کمشنر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ملاکنڈ ڈویژن سے بھی ملاقات ہوئی ہے جب کہ علاقے میں فوج کے سب سے بڑے افسر جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
شمشیر ایڈوکیٹ نے فی الفور بے گناہ افراد کے خلاف درج مقدمات واپس لینے اور فوجی چوکیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان چوکیوں پر بے گناہ لوگوں بشمول خواتین اور بچیوں کو تنگ اور بے عزت کیا جا رہا ہے۔
سوات بار ایسوسی ایشن کے صدر مجاہد فاروق ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کبل میں دہشت گردی کے ایک واقعے کے بعد چوکیوں کی تعداد زیادہ کر دی گئی ہے جس سے عوام کو مشکلات ہیں۔
ضلع کونسل سوات نے بھی پیر کو اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں بے گناہ اور پر امن مظاہرین کے خلاف غداری کے مقدمات درج کرنے کی مذمت کی تھی اور مقدمات فوری واپس لینے اور فوجی چوکیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سوات میں اتوار کو سیکڑوں افراد نے ضلعے میں فوجی چوکیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور انتظامی معاملات فوج سے لے کر سول انتظامیہ کو سونپنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مظاہرین کے خلاف پیر کو سوات کے دو مختلف تھانوں میں غداری اور ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کے الزامات میں مقدمات درج کرلیے گئے تھے۔
طالبِ علم کے قتل کے خلاف باجوڑ میں احتجاج
دریں اثنا افغانستان سے ملحق قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کے کراچی میں قتل کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بدھ کو دوسرے روز بھی جاری ہے۔
ایجنسی کے مرکز خار میں بدھ کو ہونے والے احتجاجی جلسے سے پختون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشین نے بھی خطاب کیا جو کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف چلنے والی احتجاجی تحریک اور دھرنے میں بھی پیش پیش تھے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت کراچی یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے طالبِ علم سید شاہ کے قتل میں ملوث ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔
سید شاہ دو ہفتے قبل کراچی سے پراسرار طور پر لاپتا ہوا تھا جس کے بعد ان کی تشدد زدہ لاش چند روز قبل کراچی کے ایک سرد خانے سے ملی تھی۔
مقتول کی نمازِ جنازہ پیر کو باجوڑ میں ادا کی گئی تھی جس کے بعد ایجنسی کی اہم سیاسی جماعتوں اور عمائدین نے نوجوان کے قتل کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی۔