اکوڑہ خٹک دھماکے میں مارے جانے والے مولانا حامد الحق کون تھے؟

  • اکوڑہ خٹک دھماکے میں جان کی بازی ہارنے والے مولانا حامد الحق 2002 میں رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
  • سن 2018 میں اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد وہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ بنے۔
  • مولانا حامد الحق حقانی لگ بھگ دو ہفتے قبل وزیرِ اعلٰی سردار علی امین گنڈا پور کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
  • اجلاس میں مولانا حامد الحق حقانی کی سربراہی میں ایک وفد کابل بھجوانے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔

پشاور -- درس گاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم اور جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ) کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی جمعے کو ہونے والے دھماکے میں جان کی بازی ہار گئے۔ اُن کے والد مولانا سمیع الحق کو بھی 2018 میں روالپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔

سینٹرل پولیس آفس پشاور کا کہنا ہے کہ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں دھماکہ نمازِ جمعہ کے بعد ہوا۔

مولانا حامد الحق مولانا سمیع الحق کے بڑے بیٹے اور مولانا عبدالحق کے پوتے تھے ۔ وہ 1968 میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم آبائی گاوں اکوڑہ خٹک کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے حاصل کی ۔

میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے دارالعلوم حقانیہ سے مزید دینی تعلیم حاصل کی۔

حامد الحق حقانی نے 2002 کے عام انتخابات میں چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا اور رُکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔

ضلع نوشہرہ کے اس حلقے سے مولانا حامد الحق کے دادا مولانا عبدالحق 1977 اور 1985 کے انتخابات میں بھی کامیاب ہوئے تھے ۔ تاہم 2002 کے بعد اسی خاندان کا کوئی فرد عام انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔

سابق صدر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں مولانا سمیع الحق دو مرتبہ ایوانِ بالا سینیٹ کے رُکن رہ چکے ہیں۔

مولانا حامد الحق حقانی اپنے والد سمیع الحق کی زندگی میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے تاہم دو نومبر 2018 کو مولانا سمیع الحق کی ہلاکت کے بعد وہ باقاعدہ طور پر جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ بن گئے۔

مولانا حامد الحق حقانی لگ بھگ دو ہفتے قبل وزیرِ اعلٰی سردار علی امین گنڈا پور کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ مذکورہ اجلاس میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر زور دیا گیا تھا کہ وہ خیبرپختونخوا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں اپنے حملے روک دے۔

اجلاس میں مولانا حامد الحق حقانی کی سربراہی میں ایک وفد کابل بھجوانے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔

مولانا حامد الحق حقانی شادی شدہ تھے اور اُن کے چار بچے ہیں۔

جامعہ دارالعلوم حقانیہ کا تاریخی پس منظر

سن 1947 میں قیامِ پاکستان کے فوری بعد جمعیت العلماء ہند اور دارالعلوم دیوبند سے منسلک مکاتبِ فکر کے علما میں شامل مولانا عبدالحق نے 23 ستمبر 1947 کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی بنیاد رکھی۔

ابتدائی برسوں میں برِصغیر پاک و ہند کے دیگر مدرسوں کی طرح دارالعلوم حقانیہ بھی ایک عام سی مدرسہ تھا تاہم بعدازاں خیبرپختونخوا او ربلوچستان سمیت ملک بھر سے طلبہ یہاں آنے لگے۔ خاص طور پر افغانستان سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے دارالعلوم حقانیہ میں داخلہ لیا۔

افغانستان میں 1979 میں سوویت افواج کی آمد کے بعد پاکستان منتقل ہونے والے کئی افغان مہاجرین نے اس درس گاہ میں داخلہ لیا۔

SEE ALSO: نوشہرہ: دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مسجد میں دھماکہ، جے یو آئی (س) کے سربراہ سمیت پانچ افراد ہلاک

افغان جنگ شروع ہونے سے قبل افغانستان سے تعلق رکھنے والے دارالعلوم حقانیہ کے طلبہ میں مولوی جلال الدین زدران سر فہرست تھے جو بعد میں نہ صرف عالمی سطح پر مولوی جلال الدین حقانی کے نام سے جانے پہچانے لگے بلکہ انہوں نے امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف حقانی نیٹ ورک قائم کر دیا۔

حقانی نیٹ ورک پر امریکہ اور اتحادی افواج پر حملوں کے الزامات لگتے رہے۔ جب کہ یہ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی متحرک رہا۔

ماہرین کے مطابق افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ نے جہاں ایک جانب مذہبی انتہا پسندی کے رجحان کو فروغ دیا تو وہیں مختلف اسلامی ممالک کے طلبہ بھی دینی تعلیم کے حصول میں دلچسپی لینے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد مختلف وسط ایشیائی ممالک سے بھی کئی طلبہ نے اس مدرسے میں داخلہ لیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ طالبان کے لیے ایک طرح سے 'یونیورسٹی' ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ پاکستان اور افغانستان میں مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

یہ مدرسہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مولانا سمیع الحق کو 'بابائے طالبان' بھی کہا جاتا رہا ہے۔

سابق افغان رہنما پروفیسر برہان الدین ربانی، مولای یونس خالص، مولوی جمیل الرحمان اور مولانا محمد نبی محمدی اور دیگر بھی اسی درس گاہ سے فارغ التحصیل ہیں۔