امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان اور چار دیگر ممالک کو مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک قرار دیے جانے کے بعد انہیں پابندیوں سے بچانے کے لیے صدارتی استثنٰی دینے کا اعلان کیا ہے۔
مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان سمیت نو ممالک کو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت خاص تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
اس فہرست میں پاکستان، چین، ایران، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، نائیجیریا، شمالی کوریا، میانمار اور اریٹیریا شامل ہیں۔
پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیے جانے کی تصدیق امریکہ کے سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سیموئیل ڈی براؤن بیک نے منگل کو ایک نیوز بریفنگ میں کی تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے مطابق نائیجیریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو امریکی مفادات کے پیش صدارتی چھوٹ دی گئی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کامروس، کیوبا، نیاکاراگوا اور روس کو خصوصی نگرانی والی حکومتوں کی فہرست میں شامل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
گزشتہ ماہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں توہینِ مذہب کے بڑھتے ہوئے کیسز اور بالخصوص شیعہ مسلمانوں پر ہجوم کی طرف سے مبینہ تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمیشن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو خطرات کا سامنا ہے اور حکومتِ پاکستان تمام شہریوں کے حقوق کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے۔
ادارے کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف ہجوم کی طرف سے تشدد کے واقعات کو فوری روکنے کی ضرورت ہے۔
اس معاملے پر وزیرِ اعظم پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے کہا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی کمیونٹی کے ساتھ منسلک افراد کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر تعصب نہیں برتا جا رہا۔
رواں سال جون میں کمیشن کی رپورٹ برائے 2020 میں نشان دہی کی گئی کہ پاکستان بھر میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال مسلسل ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ توہینِ مذہب اور احمدی کمیونٹی مخالف قوانین کا منظم نفاذ اور مذہبی اقلیتوں بشمول ہندو مسیحی اور سکھوں کی جبراً تبدیلیٔ مذہب کو روکنے میں حکام کی ناکامی نے مذہبی اور عقائد کی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 80 افراد توہینِ مذہب کے الزامات کے باعث قید میں ہیں جس میں سے نصف عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کررہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ کے سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سیموئیل ڈی براؤن بیک نے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ دنیا بھر میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار افراد میں سے نصف پاکستان میں قید ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین میں ہونے والی زبردستی کی شادیوں میں پاکستان کی اقلیتیں بالخصوص مسیحی اور ہندو خواتین ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
سیموئیل ڈی براؤن بیک نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان میں موجود ہندو اور مسیحی خواتین کو چین میں شادیوں کے لیے مارکیٹش کیا جاتا ہے اور اس کی بڑی وجہ ان اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے جو ان کو مزید کمزور بناتا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکہ کی طرف سے عائد ان الزامات کو مسترد کردیا تھا اور اس کو 'من گھڑت اور مخصوص فیصلہ' قرار دیا تھا۔
دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں بھارت کو بلیک لسٹ سے باہر رکھنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس فہرست میں رکھنا حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور اس عمل کے مصدقہ ہونے پر شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
ترجمان نے الزام عائد کیا تھا کہ بھارت میں ریاستی پشت پناہی میں مسلم اقلیت کے خلاف منظم تشدد ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین ہر قسم کی مذہبی آزادی اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔