پاکستان کے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (ایچ آر سی) میں بھاری اکثریت سے انتخاب پر ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں یہ پیش رفت اسلام آباد کی بین الااقوامی سفارتی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے وہیں یہ ملک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری سے متعلق اپنی کارکردگی بہتر بنائے۔
اقوام متحدہ کی 193 ممبران پر مشتمل جنرل اسمبلی نے پاکستان کو 169 ووٹوں سے انسانی حقوق کی کونسل کے رکن کی حیثیت سے دوسری بار مسلسل منتخب کیا۔ یوں پاکستان کے لیے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرنے کا ایک پلیٹ فارم اسے حاصل رہے گا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان پر انسانی حقوق کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کے پس منظر میں پاکستان کا انتخاب کئی عوامل کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ کئی عشروں سے اقوام متحدہ میں سفارتی جنگوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے والے صحافی افتخار علی کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سفارت کاری کا کردار اہم رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی مسائل ہیں، تو افتخار علی نے کہا کہ تمام ممبران ایک دوسرے کے ملکوں میں صورت حال سے باخبر ہوتے ہیں۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ عالمی فورم پر باہمی مفادات اور تعاون کی بنیاد پر ووٹ اور حمایت حاصل ہوتی ہے اور سلسلے میں پاکستان نے ہمیشہ ترقی پذیر ممالک کو درپیش مسائل پر ان کا ساتھ دیا ہے۔
افتخار علی کہتے ہیں کہ پاکستان شروع ہی سے اقوام متحدہ کا اہم اور فعال ممبر رہا ہے۔ اس نے ایشیائی اور افریقی ممالک کے حق خودارادیت اور معاشی مسائل پر ان کا ساتھ دیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان نے کم ترقی یافتہ ممالک پر قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی بات کی ہے اور اسلام کے متعلق نفرت انگیز مواد پھیلانے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
بقول افتخار علی ان تمام عوامل کی وجہ سے پاکستان کی کوششوں کو جنرل اسمبلی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان کو اس بار بھی اراکین کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت حاصل رہی۔
امریکن یونیورسٹی میں ابن خلدون کے نام سے منسوب اسلامیات کے محکمہ کے چیئرمین پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ سفارت کاری اور ممبران کے ووٹ دینے کے محرکات کے علاوہ جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے معروضی حالات نے پاکستان کے بین الاقوامی تشخص کو کچھ بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔
ایک طرف تو افغانستان کی جنگ جاری ہے اور وہاں دو گروہوں کے درمیان سیاسی سطح پر طویل عرصے سے تناؤ اور اقتدار کی کشمکش ہے۔
دوسری جانب بھارت میں اقلیتوں کی حقوق کی پامالی نے دنیا میں اس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
بھارت کے کشمیر اور دوسری جگہوں پر ریکارڈ کے مقابلے میں پاکستان میں اس وقت ریاست کی جانب سے کسی اقلیتی آبادی کے خلاف پرتشدد یا حقوق غصب کرنے کی کوئی بڑی مہم جاری نہیں ہے۔
لیکن ساتھ ہی ڈاکڑ اکبر احمد نے کہا کہ اس کونسل کا ممبر بننا پاکستان کے لیے اہم موقع ہے کہ وہ اپنے ملک میں انسانی حقوق کے مسائل کے حل پر توجہ دے تاکہ لوگوں کو بہتر ماحول ملے اور اس کے بین الااقوامی حریف اس پر یہ انگلی نہ اٹھائیں کہ اس ممبر کے اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیا ں ہورہی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ ڈاکڑ اکبر احمد کا کہناتھا کہ پاکستان کی حکومت کو انسانی حقوق کے حوالے سے تعلیم پر زور دینا چاہیے۔
اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک واضح منشور دیا تھا جو کہ تمام طبقات اور ملک میں بسنے والی تمام برادریوں پر یکساں نافذ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں انسانی اور شہری مساوی حقوق کے حوالے سے قائداعظم کی تعلیمات پڑھانے کی ضرورت ہے تا کہ معاشرہ میں انصاف اور مساوی برتاؤ کی اقدار کو دیرپا بنایا جا سکے۔
اس ہفتے اپنے دوبارہ انتخاب سے پہلے پاکستان یکم جنوری 2018 سے ایچ آر سی کا رکن چلا آ رہا ہے۔ یکم جنوری 2021 سے پاکستان آئندہ تین برس کے لیے کونسل کے رکن کی معیاد کا آغاز کرے گا۔
جنیوا میں قائم 47 ملکوں پر مشتمل ہیومن رائٹس کونسل ایک بین الحکومتی کونسل ہے جو کہ اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہو یا آزادی اظہار کا، اسی طرح مذہبی آزادیوں میں احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے حالات کی بات ہو تو حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور سرگرم کارکن پاکستان کو بہتر درجہ بندی رکھنے والے ممالک میں شامل نہیں رکھتے۔