غزہ کے بے گھر لوگوں کو جنگ سے تباہ حال علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جانا چاہیے، ٹرمپ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ , 4 فروری 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کر رہے ہیں۔

  • غزہ کے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے کہیں باہر"مستقل طور پر" آباد کیا جانا چاہیے۔ٹرمپ
  • مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کو(غزہ) واپس جانا چاہئے۔ مصر اور اردن اور دوسرے ممالک بالآخر فلسطینیوں کو لینے پر راضی ہو جائیں گے۔
  • ٹرمپ نے کہا، آپ دہائیوں پر نظر ڈالیں، غزہ میں سب موت ہی ہے۔
  • مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور جگہ کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسا مقام ہونا چاہیے جو لوگوں کو خوش کرے۔"
  • اس سے قبل مصر،اردن اور دیگر عرب ممالک نے جنگ کے بعد علاقے کی تعمیر نو کے دوران غزہ کی پٹی سے 23 لاکھ فلسطینیوں کو منتقل کرنے کی صدر ٹرمپ کی تجاویزکو مسترد کر چکے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو تجویز دی کہ غزہ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے کہیں باہر"مستقل طور پر" آباد کیا جانا چاہیے۔ٹرمپ نے یہ بات اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے آغاز پر صحافیوں سے بات کرتےہوئےکہی۔

اس موقع پر ٹرمپ نے کہا ، "مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کو(غزہ) واپس جانا چاہئے۔"انہوں نے مزید کہا،"آپ اس وقت غزہ میں نہیں رہ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور جگہ کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسا مقام ہونا چاہیے جو لوگوں کو خوش کرے۔"

صدر کے بیان سے قبل ان کے اعلیٰ مشیروں نے کہاتھا کہ جنگ زدہ علاقے کی تعمیر نو کے لیے تین سے پانچ سال کی ٹائم لائن، جوا کہ عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں بیان کی گئی ہے، قابل عمل نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ نے مصر اور اردن سے غزہ کے باشندوں کو اپنے ملکوں میں دوبارہ آباد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جسے دونوں ممالک نے مسترد کر دیا ہتھا۔

تاہم، ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ مصر اور اردن اور دوسرے ممالک، جن کا انہوں نے نام نہیں لیا، بالآخر فلسطینیوں کو لینے پر راضی ہو جائیں گے۔

صدر ٹرمپ نےغزہ کی عشروں کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہ کہا کہ آپ دہائیوں پر نظر ڈالیں، غزہ میں موت ہی ہے۔انہوں نے مزید کہا،" ایسا کئی سالوں سے ہو رہا ہے۔ یہ سب موت ہے۔ اگر ہم لوگوں کو مستقل طور پر اچھے گھروں میں آباد کرنے کے لیے ایک خوبصورت علاقہ حاصل کر سکیں جہاں وہ خوش رہ سکیں اور انہیں گولی نہ ماری جائے، انہیں ہلاک نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں چاقو سے مارا جائے جیسا کہ غزہ میں ہو رہا ہے۔‘‘

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس موقف کی وضاحت

اس سے قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی نے منگل کو کہاتھا کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے تین سے پانچ سال کی ٹائم لائن جنگ سے تباہ حال علاقے کے لیے لڑائی کے خاتمے کا کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق تین سے پانچ سال میں تعمیر نو کا منصوبہ اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں طے کیا گیا ہے۔

ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو منگل کو صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں میٹنگ کے لیے پہنچ چکے ہیں اور واشنگٹن نے عرب ممالک سے غزہ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی نقل مکانی کے لیے اپنے مطالبے کو دہرایا ہے۔

وٹکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’میرے نزدیک فلسطینیوں کو یہ سمجھانا ناانصافی ہے کہ شاید وہ پانچ سال میں واپس آسکیں گے‘‘۔

Your browser doesn’t support HTML5

یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں امداد کی صورتحال

عرب ملکوں کا ردعمل:

مصر،اردن اور دیگر عرب ممالک نے جنگ کے بعد علاقے کی تعمیر نو کے دوران غزہ کی پٹی سے 23 لاکھ فلسطینیوں کو منتقل کرنے کی صدر ٹرمپ کی تجاویزکو مسترد کر دیا ہے۔

لیکن، اے پی کے مطابق، امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فلسطینیوں کی غزہ سے نقل مکانی کے لیے زور دے رہے ہیں۔

اس ضمن میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نےکہا کہ غزہ کی تعمیر نو کے معاملے کو "حقیت پسندانہ" طریقے سے دیکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا،"آپ غزہ کی تعمیر کیسے کریں گے؟ ٹائم لائن کیا ہے؟ یہ لوگ ملبے کے ڈھیر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے اسلحے پر بیٹھے ہیں جو ابھی پھٹا نہیں ہے۔"

SEE ALSO: اسرائیل پر حماس کے حملے کی پہلی برسی، متاثرین کس حال میں ہیں

غزہ میں تعمیر نو پر وائٹ ہاؤس کی توجہ اس وقت مرکوز ہو رہی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ بندی ایک نازک موڑ پر ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کو اس وقت دو اطراف سے حماس کے خلاف جنگ کے معاملے پر دباو کا سامنا ہے۔

ایک طرف تو ان کے دائیں بازو کے اتحادی غزہ میں حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف عارضی جنگ بندی ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب جنگ سے اکتائے ہوئے اسرائیلی غزہ میں اسیر یرغمالیوں کو گھر واپس لانا چاہتے ہیں اور 15 ماہ سے جاری تنازعہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ، دریں اثنا، جنگ بندی کے طویل مدتی امکانات کے بارے میں محتاط نظر آتے ہیں۔ اسرا ئیل اور حماس کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاوس میں اپنے دوسرے دور اقتدار کے آغاز سے ایک روز قبل شروع ہوا تھا۔

ٹرمپ نے اے پی کے مطابق پیر کے روز صحافیوں کو بتایا، ’’میرے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے کہ (مشرق وسطی میں) امن برقرار رہے گا۔"

توقع ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی بات چیت میں اسرائیل اور سعودی عرب کے معمول کے تعلقات استوار کرنے کے معاہدے اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خدشات پر بھی بات ہو گی۔

تاہم، وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں معاہدے کے تحت دوسرے مرحلے میں یرغمالوں کی رہائی کو مکمل کرنا ایجنڈے میں سرفہرست معاملہ ہوگا۔

صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے ہمسایہ ملک مصر اور اردن منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔لیکن مصرکے صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے اسے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

’ہم شمالی غزہ کو دوبارہ تعمیر کریں گے‘: فلسطینیوں کی واپسی جاری

مشرق وسطی کے دوسرے ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور تنظیموں فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ نے بھی مصر اور اردن کے ساتھ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے فلسطینیوں کومنتقل کرنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ مصر اور اردن کو ب جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں کیونکہ امریکہ قاہرہ اور عمان کو بڑی امداد فراہم کرتا ہے۔

ادھر نیتن یاہو کی حکومت کے سخت گیر دائیں بازو کے ارکان نے بے گھر فلسطینیوں کو غزہ سےمنتقل کرنے کے مطالبے کو قبول کیا ہے۔

غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس دہشت گرد حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ حماس ، جسے امریکہ اور کئی مغربی ملکوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے، لگ بھگ 250 افراد کو یرغمال بنا لیا جنہیں عسکریت پسند اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔

ادھر حماس کے زیر اہتمام غزہ کےصحت کے حکام کے مطابق، محصور پٹی میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 47 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17000 عسکریت پسند شامل ہیں لیکن اس بارے میں حکام نے کوئی ثبوت نہیں دیا ہے۔

(اس خبرمیں شامل بیشتر معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)