تین ڈاکٹر بھائی بہنوں کا پاکستان میں قرنیہ کی مفت فراہمی کا مشن

تین پاکستانی امریکی ڈاکٹر بھائی بہنوں, ڈاکٹرفواد ظفر، ڈاکٹر صائمہ ظفر اور ڈاکٹر عائشہ ظفر کے قرنیہ پراجیکٹ کے تحت پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ لوگوں کی مفت قرنیہ ٹرانسپلانٹیشن نے ان کی بینائی لوٹا دی۔

  • تین پاکستانی امریکی ڈاکٹر بھائی بہنوں کاپاکستان میں مفت قرنیہ کی فراہمی کا مشن.
  • سات سال میں یہ مشن پاکستان کے بیس شہروں اور افغانستان کے دوشہروں کے بیالیس سرکاری اسپتالوں تک پھیل گیا ہے ۔
  • تینوں بہن بھائی اپنا یہ مشن خود ہی اور اپنے اہل خانہ کی فنڈنگ کے ساتھ مل کر انجام دیتے ہیں اگرچہ کچھ فنڈز پاکستانی امریکی ڈاکٹرو ں کی تنظیم اپنا بھی فراہم کرتی ہے ۔
  • ڈاکٹر فوادپاکستانی امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم اپنا کے قرنیہ پروگرام کے بھی بانی اور سر براہ ہیں۔

"یہ 2017 کی بات ہے جب سری لنکا میں ایک سابق کلاس فیلو نے جو میڈیکل چھوڑ کر سری لنکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر بن چکے تھے، مجھے بتایا کہ وہ سری لنکا سے قرنیہ کے عطیات لے کر پاکستان جا رہے ہیں جہاں لاکھوں لوگ قرنیہ کے فقدان اور اس کے مہنگے علاج کی وجہ سے اپنی پوری عمر بینائی سے محرومی کی حالت میں گزارتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے مجھے اپنےآبائی ملک میں قرنیہ کی مفت ٹرانسپلانٹیشن کا وہ مشن شروع کرنے کی تحریک دی جو اب تک پاکستان کے ہزاروں نابینا لوگوں کی اندھیری زندگیاں روشن کر چکا ہے۔"

یہ کہانی ہے امریکی ریاست آئیووا میں مقیم ایک پاکستانی امریکی یورولوجسٹ اورپاکستان میں قرنیہ کی مفت پیوند کاری میں کوشاں’ظفرمیر فاؤنڈیشن‘ کے ایک فاؤنڈر ڈاکٹر فواد ظفر کی۔ وہ اپنی دو ڈاکٹر بہنوں کے ساتھ مل کر اپنی فاؤنڈیشن اور پاکستانی امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم ” اپنا” کی پارٹنر شپ کے ساتھ گز شتہ سات برسوں میں پاکستان میں لگ بھگ ساڑھے سات ہزار غریب مریضوں کے لیےقرنیہ کی مفت ٹرانسپلانٹیشن سےان کی زندگیوں کو یکسر تبدیل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔

میر ظر فاؤنڈیشن اور اپنا کی پارٹنر شب سے ایک قرنیہ بلانئڈ پاکستانی بچی قرنیہ کی مفت ٹرانسپلانٹ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔

قرنیہ کیا ہے؟

وائس آف امریکہ کو ایک انٹر ویو میں ڈاکٹر فواد ظفر نے بتایا کہ آنکھ کی پتلی کا سامنے کا شفاف حصہ، جسے قرنیہ کہتے ہیں کسی بھی چوٹ حادثے یا کسی موروثی وجہ سے خراب ہونے پر انسان کو نابینا کر دیتا ہے مگر سرجری کے ذریعے نیا قرنیہ لگا کر بینائی کو واپس لایا جا سکتا ہے۔

ایک مریض کا نقصان زدہ قورنیہ

انہوں نےکہا یہاں امریکہ اور دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں لوگ اپنے مرنے کے بعد اپنی آنکھیں عطے میں دیتے ہیں لیکن پاکستان میں لوگ خال خال ہی ایسا کرتے ہیں اوروہاں لاکھوں مریض جو صرف سری لنکا سےقرنیہ کے عطیات پر انحصار کرتے ہیں ایک قابل علاج مرض کے علاج سے محرومی کے باعث عمر بھر نابینا پن کے ساتھ مجبورو بے کس زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔خاص طور پر غریب لوگ جو قرنیہ کی مہنگی سرجری کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔

مشن کا آغاز ، میو ہسپتال لاہور

ڈاکٹر فواد نے بتایا کہ اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے کےلیے سب سے پہلے میں نے لاہور کے میو ہسپتال میں اپنے ڈاکٹر دوست، اوپتھیلمالوجی وارڈ کےسربراہ کو شامل کیا جنہوں نے بتایا کہ ان کے پاس 500 مریض قرنیہ ٹرانسپلانٹ کی ویٹنگ لسٹ میں ہیں جب کہ پورے پاکستان میں پندرہ سے بیس لاکھ لوگ قرنیہ بلائنڈ ہیں جو اپنا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں امریکہ سے قرنیہ فری مل جاتے ہیں تو وہ اپنے ہسپتال میں غریب مریضوں کے لیے مفت ٹرانسپلانٹ سرجری کا بندو بست کر سکتے ہیں ۔

ڈاکٹرفواد ظفر،

لائنز آئی بینک فلوریڈا کی پیش کش

ڈاکٹر فواد نے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مفت سرجری کی پیش کش ملنے کے بعد ہم نے اپنی ظفر میر فاؤنڈیشن کے فنڈز کی مدد سے امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم لائنز آئی بینک سے قرنیہ خریدنے کے لیے رابطہ کیا جو ایک قرنیہ ساڑھے تین ہزار ڈالر میں فروخت کرتا تھا ۔لیکن یہ معلوم ہونے پر کہ ہم یہ کام فلاحی طور پر کر رہے ہیں تو وہ شپنگ سمیت ایک قرنیہ ساڑھے تین سو ڈالر میں فراہم کرنے پر رضامند ہو گیا۔ ہم نے اس سے دس قرنیہ خریدے اور بینک نے انہیں محفوظ طریقے سے میو ہسپتال لاہور پہنچادیا جہاں مقامی سرجنز نے دس مریضوں کوقرنیہ مفت ٹرانسپلانٹ کر کے انہیں ایک بار پھر بینا کر دیا۔

ہمارا مشن پاکستان کے بیالیس اور افغانستان کے دو اسپتالوں تک پہنچ گیا ہے

ڈاکٹر فواد نے بتایا کہ جیسے جیسےہمار ے فنڈز بڑھتےگئےہم نےاپنےمشن کو پہلے پاکستان کےچاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں اور اس کے بعد ملک کےچھوٹے شہروں کےدوسرے سرکاری اسپتالوں تک پہنچا دیا۔ اور یوں یہ سلسلہ سات سال میں اب پاکستان کے بیس شہروں کے بیالیس سرکاری ہسپتالوں اور افغانستان کے دوشہروں کےدوسرکاری ہسپتالوں تک پھیل گیا ہے ۔

ڈاکٹر صائمہ ظفر

وی او اے سے بات کرتے ہوئے ظفر میر فاؤنڈیشن کی کو فاؤنڈر ڈاکٹر صائمہ ظفر نےجو ٹیکساس میں ایک کارڈیالوجسٹ ہیں کہا، امریکہ میں ہماری فاؤنڈیشن میں کوئی ملازم نہیں ہے۔ اس ادارے کا خرچ صفر ہے ۔ ہم تینوں بہن بھائی اپنا یہ مشن خود اور اپنے اہل خانہ کی فنڈنگ کے ساتھ مل کر انجام دیتے ہیں اگرچہ کچھ فنڈز ہمارے دوست احباب اور پاکستانی امریکی ڈاکٹرو ں کی تنظیم اپنا بھی فراہم کرتی ہے ۔

ڈاکٹر صائمہ ظفر

انہوں نے کہا کہ ہم اب قرنیے صرف فلوریڈا کے لائنز آئی بینک سے ہی نہیں بلکہ امریکہ کے مختلف آئی بینکوں سے خریدتے ہیں جو پاکستان میں 48 گھنٹوں کے اندر پہنچتے ہیں اور جس دن وہ وہاں پہنچتے ہیں اسی دن مریضوں کی سرجری ہو جاتی ہے اور سرجری کے بعد ان مریضوں کو مفت دیکھ بھال بھی فراہم کی جاتی ہے ۔

اس سوال پر کہ پاکستان میں نابینا مریضوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس اسپتال میں کب قرنیہ کی مفت سرجری ہو گی اور کس کی ؟ ڈاکٹر صائمہ ظفرنے بتایا کہ پاکستان میں غریب سے غریب مریض کے پاس بھی سیل فون ہوتے ہیں لیکن اسپتال بھی اس کی پبلسٹی کرتے ہیں اوررابطہ کرنے والے مریضوں کی رجسٹریشن کر تے ہیں۔ پھر قرنیہ پہنچنے سے قبل ویٹنگ لسٹ کے مطابق مریضوں کو اسپتال پہنچنے کے لیے کال کر دیتے ہیں ۔

مریضوں کے لیے سفر کی مشکلات کا حل

ظفر میر فاؤنڈیشن کی دوسری کو فاؤنڈر ڈاکٹر عائشہ ظفر نے جو انڈیانا پولس میں میڈیسن فزیشن ہیں،کہا کہ شروع شروع میں جب ہم پاکستان کے بڑےشہروں ہی میں سرجری کا بندو بست کرانے میں کامیاب ہوئے تھے تو غریب نابینا افراد کے لیے سفر اور اس کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوتے تھے لیکن اب ہم نے ملک بھر میں 20 شہروں کے ب42 ہسپتالوں میں یہ سرجری کروانے کا اہنتظام کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اب پاکستان بھر میں کسی بھی مریض کو سرجری کے مرکز تک پہنچنے میں بہت کم فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ اور جن مقامات پر سرجن موجود نہیں ہوتے وہ دوسرے علاقوں سے سفر کر کے مقررہ وقت پر ہسپتالوں میں پہنچ کر سرجری کرتے ہیں اور اس کے لیے کوئی فیس نہیں لیتے ۔

ڈاکٹر عائشہ ظفر

ٹرانسپلانٹیشن کی شفافیت

ڈاکٹر عائشہ ظفر نے بتایا کہ قرنیہ کے ہر مریض کی قرنیہ لگنے سےپہلے اور بعد میں ہر اسپتال میں ویڈیوز بنائی جاتی ہیں جن میں ان سے یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ ان کی سرجری اور تمام علاج اور دیکھ بھال فری ہوا ہے اور یہ کہ بینائی کی واپسی کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے یا آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمار ے پاس اس وقت لگ بھگ ساڑھے سترہ ہزار مریضوں کی یہ ویڈیوز موجود ہیں۔جب کہ ان سرجریز کے بارے میں پاکستان کے مقامی اخبار اور میڈیا بھی رپورٹنگ کرتا رہتا ہے۔ ہم خودبھی بعد میں ان مریضوں سے فون پر بات کرکے ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔

امریکہ میں قرنیہ ٹرانسپلانٹیشن پرخرچ

ڈاکٹر فواد نے بتایا کہ امریکہ میں قرنیہ ٹرانپلاٹیشن میں فی قرنیہ ساڑھے تین ہزار سے ساڑھے چار ہزار ڈالرز کا خرچہ آتا ہے جب کہ سرجری سنٹر اور سرجری کے بعد کی دیکھ بھال کے اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں ان سب کو ملا کر ایک قرنیہ ٹرانسپلانٹ کرانے میں 10 سے 12ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ ہوتے ہیں۔ اور اگر اسے پاکستانی روپو ں میں تبدیل کریں تویہ لاکھوں روپے بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب تک پاکستان میں 24 لاکھ ڈالر کے قرنیے بھیج چکے ہیں۔

کامیابی کی کہانیاں

ڈاکٹر صائمہ ظفر کہا کہ قرنیہ پراجیکٹ کی کامیابی کی کہانیاں تو لگ بھگ ساڑھے سات ہزار ہیں۔ مثلاً میرے لیے ایک بہت بڑی کامیابی غریب والدین کے چودہ ماہ کے اس بچے کی وہ مسکراہٹ تھی جو قرنیہ لگنے کے بعد اپنے والد کوپہلی باردیکھ کر اس کے چہرے پر آئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

چودہ ماہ کا شہاب جس نے قرنیہ کی سرجری کے بعد پہلی بات اپنے والد کو دیکھا

ہماری کامیابی اس نابیناماں کی کہانی ہےجس نے لگ بھگ بیس سال کے بعد پہلی بار اپنی بیٹیوں کو دیکھا۔۔ہماری کامیابی کی کہانی در اصل ان لگ بھگ ساڑھے سات ہزار غریب لوگوں کی کامیابی کی کہانیاں ہیں جو قرنیہ لگنے کے بعد اپنی زندگی میں وہ کچھ کر رہے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں ۔

پاکستان کے ایک غریب بچے کی قرنیہ کی سرجری،

خاندان کی نئی جنریشن کی مشن میں شمولیت

ڈاکٹرفواد ظفر ڈاکٹر صائمہ ظفر اور ڈاکٹر عائشہ ظفر کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ فاؤنڈیشن اپنے مرحوم والد ، نشتر میڈیکل کالج ملتان کے پرنسپل مرحوم ڈاکٹر ظفر حیات اور مرحوم والدہ ڈاکٹر بلقیس ظفر سے ورثے میں حاصل کی گئی خدا ترسی کے تحت شروع کیا ہے اور ہم اس فلاحی مشن میں اپنے خاندان کی نئی جنریشن کو بھی شامل کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بعدوہ اس مشن کو جاری و ساری رکھ سکیں ۔

انہوں نےکہا کہ اپنے اس پراجیکٹ کو مسلسل جاری رکھنے کے کےلیے ہم اپنی فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں کسی بھی وقت کئی لاکھ ڈالر کے فنڈزکو ختم نہیں ہوتے دیتےجو ہم تینوں بہن بھائی خود اور اپنے خاندان اور احباب سے اکٹھے کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم تینوں بہن بھائی اور ہمارا خاندان سبھی یہاں امریکہ میں ہر اعتبار سے کامیاب زندگیاں گزار رہےہیں اور ہماری زندگی میں اب کامیابیوں کا ایک ہی محور ہے اور وہ ہے پاکستان اور دنیا بھر میں قرنیہ نابینا لوگوں تک پہنچا کر، ان کی اندھیری زندگیوں کو روشن کرنا ۔ کیوں کہ ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ وہ دنیا کی رنگینی دیکھے اور معذوری سے آزاد زندگی گزارے۔

ڈاکٹر فواد ظفر نے کہا کہ میں اور میری بہنیں ڈاکٹر صائمہ اور ڈاکٹرعائشہ اپنے مشن کو اس وقت تک جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں جب تک پاکستان میں قرنیہ کی وجہ سے نابینا ہونے والے ہر شخص کو بینائی مفت فراہم کرنے کا بندو بست نہیں ہوجاتا ۔