سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پیدائشی نابینا پن ختم کرنے کے لیے پہلی بار انسانی جسم کے اندر ڈی این اے کی سرجری کی ہے۔
یہ سرجری امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر پورٹ لینڈ میں واقع اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے کیسی آئی انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی ہے۔ اس ادارے میں وراثت میں ملنے والے اندھے پن کا علاج کیا جاتا ہے۔
انسانی جسم اندر ڈی این اے کی ایڈٹینگ یا سرجری بدھ کے روز کی گئی۔ تاہم، مریض کے کوائف کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سرجری کے نتائج ظاہر ہونے میں تقریباً ایک مہینہ لگے گا۔
سرجری پر تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوا جس کے لیے مریض کو بے ہوش کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انسانی بال جتنی باریک ٹیوب کے ذریعے آنکھ کی پتلی میں ایک مخصوص دوا کے تین قطرے ٹپکائیں گے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ دوا ڈی این اے کی ایڈیٹنگ کرے گی۔ ایڈیٹنگ کا عمل مکمل ہونے جانے کے بعد اس کے اثرات عمر بھر قائم رہیں گے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پیدائشی نابینا پن کی وجہ عموماً آنکھ کے ڈی این اے کی خرابی ہوتی ہے۔ یہ ڈی این اے ایک خاص پروٹین پیدا کرتا ہے جو روشنی کو لہروں میں تبدیل کر کے دماغ کے اس حصے تک پہنچاتا ہے جو دیکھنے کا کام کرتا ہے۔ بعض افراد میں پیدائشی طور پر آنکھ کے ڈی این اے میں خرابی ہوتی ہے جو روشنی کو لہروں میں تبدیل ہونے سے روکتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عموماً بینائی کی یہ خرابی پیدائشی ہوتی ہے۔ ایسے افراد میں شروع میں بہت کم دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بینائی مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس نابینا پن کا آنکھ کے ڈی این اے کی خرابی دور کرنے کے سوا کوئی اور علاج نہیں ہے۔ اگر ڈی این اے کی اس درمیانی رکاوٹ کو دور کر دیا جائے تو وہ روشنی کو دماغ کی طرف بھیجی جانے والی لہروں میں تبدیل کرنا شروع کر دیتا ہے اور مریض دیکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
سرجری کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر ڈی این اے کی ایڈیٹنگ کے نتائج حوصلہ افزا رہے تو مزید 18 مریضوں کی سرجری کی جائے گی جن میں بچے اور بالغ دونوں شامل ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آنکھ کے ڈی این اے کی نسبتاً محفوظ ہے اور اس کے قابل ذکر نقصان دہ سائیڈ ایفکٹ نہیں ہوتے اور سرجری کا اثر جسم کے کسی دوسرے حصے پر بھی نہیں پڑتا۔ انہیں توقع ہے کہ اس سے ایک تہائی تک بینائی واپس آ سکتی ہے۔