پاکستان میں آنکھ کی پتلی یا قرنیہ کی خرابی کی وجہ سے لاکھوں افراد نابینا کا شکار ہیں یا انہیں نابینا ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ اس علاج پر تقریباً پانچ لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے۔ بہت سے لوگ مہنگے علاج کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے زندگی بھر تاریکیوں میں رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ایسے مریضوں کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستانی فزیشنز آف نارتھ امریکہ یا اپنانے پاکستان کے مختلف اسپتالوں کے ماہر امراض چشم کی مدد سے قرنیہ کی مفت ٹرانسپلانٹیشن کا ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے۔
گزشتہ دنوں اس پراجیکٹ کی انچارج اور ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والی اپنا سوشل ویلفیئر کمیٹی کی چیئر پرسن ڈاکٹر عائشہ ظفر نے وائس آف امریکہ کے اردو سروس کے پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں گفتگو کرتے ہوئے اس پراجیکٹ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پراجیکٹ ج گزشتہ سال اپنا کے چار پانچ ارکان نے لاہور کے میو اسپتال کے نابینا مریضوں کو چار یا پانچ قرنیوں کی فراہمی سے شروع کیا تھا اب اس تنظیم کا ایک بڑا پراجیکٹ بن چکا ہے اور اب تک پاکستان کے چاروں صوبوں میں آنکھوں کے قرنیوں کی خرابی کی وجہ سے نابینا پن میں مبتلا ساڑھے سات سو سے زیادہ غریب مریضوں کو قرنیہ کی ٹرانسپلانٹیشن کی سرجری بالکل مفت فراہم کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ماہر امراض چشم، اور امراض چشم کے ملک کے سب سے بڑے نیٹ ورک ایل آر بی ٹی اور آئی بینک سوسائٹی کراچی اسپتال کے تعاون سے چلنے والے اپنا کے اس پراجیکٹ کے تحت امریکی آئی بینکس سے قرنئے خرید کر پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں پہنچائے جاتے ہیں جہاں پاکستانی سرجن مستحق مریضوں کو بلا معاوضہ قرنیہ لگا کر ان کی زندگی کو روشن بنا دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مقامی اسپتال آلات اور دوسری متعلقہ سہولیات کی فراہمی میں تعاون کرتے ہیں۔
ریاست آئیوا سے تعلق رکھنے والے پراجیکٹ کے کوآرڈی ڈاکٹر فواد ظفر نے بتایا کہ اس وقت یہ پراجیکٹ امریکہ کے مختلف آئی بینکس سے قرنیےخرید کر پاکستان کے چودہ شہروں کے اسپتالوں میں بھیج رہا ہے اور اب آئندہ چند ماہ میں پمز اور الشفا اسلام آباد کے علاوہ اسکردو میں بھی مفت سرجری کا بندو بست ہونے کے بعد یہ تعداد بڑھ کر 17 ہو جائے گی۔
پاکستان میں اپنا پراجیکٹ سے وابستہ ادارے ایل آر بی ٹی کے کراچی مرکز کے ڈاکٹر فواد رضوی نے، جو کراچی اور پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں قرنیہ کی مفت سرجری کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، بتایا کہ پاکستان میں اپنی وفات کے بعد اپنے قرنیے عطیہ کرنے کا رجحان بہت کم ہے، جب کہ ملکی قانون کے تحت یہ ایک جائز عطیہ ہے اور علما بھی اسے جائز قرار دے چکے ہیں، تاہم اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ا نہیں اس کے بارے میں آگاہی نہیں ہے اور پاکستان میں قرنیہ کے عطیات کی رجسٹریشن کرانے اور قرنیہ نکالنے اور انہیں محفوظ کرنے کے لیے آئی بینکس صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہی ہیں اور دوسرے کسی بھی شہر یا علاقے میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ بہر طور جہاں یہ بینکس موجود ہیں وہاں بھی قرنیوں کی رجسٹریشن کا رجحان بہت کم ہے اور جو لوگ رجسٹریشن کراتے بھی ہیں ان کے لواحقین عام طور پر ان کے انتقال کے بعد فوری طور پر متعلقہ اسپتال کو اطلاع نہیں دیتے یا اس پر عمل درآمد کو درست نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے قرنیہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ قرنیہ ہر صورت میں چند گھنٹوں کے اندر نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد وہ قابل استعمال نہیں رہتا۔
ڈاکٹر فوادرضوی نے کہا کہ پاکستان میں قرنیہ عطیہ کرنے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ غلط عام تاثر ہے کہ ان کی پوری آنکھ نکال دی جائے گی،حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ کیوں کہ قرنیہ نکالنے کے بعد اس جگہ ایک مصنوعی پتلی لگا دی جاتی ہے جس سے آنکھ کی ساخت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا ضرورت اس امر کی ہے کہ مخیر حضرات سائنٹیفک طرز کے جدید ترین آئی بینکس قائم کرنے لیے آگے آئیں اور پاکستانیوں میں قرینہ کے عطیات کی ا ہمیت کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر فواد رضوی کا کہنا تھا کہ اپنا کا یہ پراجیکٹ پاکستان میں ان افراد کی زندگیوں میں روشنی لا رہا ہےجو قرنیے کی خرابی اور غربت کے باعث شاید زندگی بھر تاریکیوں میں بھٹکتے رہتے۔