وائٹ ہاؤس کے باغات کی سیر

وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن کا ایک نظارہ۔ فائل فوٹو

  • وائٹ ہاؤس کے سبزہ زار اور پھولوں کے تختے دلکش مناظر پیش کرتے ہیں۔
  • اوول آفس کا روز گارڈن خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
  • وائٹ ہاؤس کے باغات کی تزئین و آرائش میں صدور اور ان کی بیگمات کا بھی کردار ہے۔
  • وائٹ ہاؤس میں ایک کچن گارڈن بھی موجود ہے جسے مشیل اوباما نے بنوایا تھا۔
  • وائٹ ہاؤس کا ایک باغ خاتون اول کا باغ کہلاتا ہے۔
  • روز گارڈن صدر کینیڈی نے بکنگھم پیلس کے دورے میں اس سے متاثر ہو کر بنوایا تھا۔
  • وائٹ ہاؤس کے باغات کے دروازے سال میں دو بار اپریل اور اکتوبر میں عام لوگوں کے لیے بھی کھول دیے جاتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے سبزہ زار اور ان کے اطراف میں خوش رنگ اور خوش نما پھولوں کی کیاریاں اپنی مثال آپ ہیں اور ہر سال اپریل اور اکتوبر میں عام لوگوں کے لیے وائٹ ہاؤس کے گیٹ کھول دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان باغات میں چہل قدمی کا لطف اٹھا سکیں۔

19 ویں صدی تک، جب سیکیورٹی کے زیادہ مسائل نہیں تھے،لوگ سال بھر جب چاہتے وائٹ ہاؤس کے باغات میں کچھ وقت گزار سکتے تھے۔ لیکن اب سیکرٹ سروس کے اہل کار پھولوں کے ان باغات کی نگرانی کرتےہیں اور وہاں تک عام لوگوں کی رسائی محدود ہے۔

وائٹ ہاؤس کے سبزہ زاروں کا شمار واشنگٹن کے قدیم ترین پھولوں کے باغات میں ہوتا ہے۔پارک سروس کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کا وہ قدیم ترین لینڈ اسکیپ (پھولوں ، درختوں اور سبزہ زار کا منظر) ہے جس کی مسلسل دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس کا جیکولن کیینڈی گارڈن

مارتھا مک ڈوول نے وائٹ ہاؤس کے پھولوں کے باغات پر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ہے’ تمام صدور کے باغات‘ (All the Presidents’ Gardens) ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ روایات سے بھرپور ہیں۔ یہ بہت خوبصورت ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ انہیں اتنا محفوظ کیا گیا ہے، لیکن یہ جدید زندگی کی ایک ضرورت ہے۔

جب سال میں دو بار عام لوگوں کو وائٹ ہاؤس کے باغات دیکھنے کی اجازت دی جاتی ہے تو وہ گیٹ کے باہر قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن کا ایک منظر

وائٹ ہاؤس میں آنے والے مہمانوں کو اوول آفس کے باہر گلاب کے باغ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اوول آفس وہ کمرہ ہے جہاں صدر اپنے دفتری امور سرانجام دیتے ہیں۔ یہ باغ مستطیل شکل کا ایک خوبصورت سبزہ زار ہے جس کے چاروں طرف مختلف رنگوں کے گلاب کے پودے ہیں اور خوشنما پھول اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ باغ اہم تقاریب کے لیے استعمال ہوتا ہے مثال کے طور پر کسی بل پر دستخطوں کی تقریب یا کوئی اہم پریس کانفرنس وغیرہ۔

اس باغ کی تعمیر کا سہرا صدر جان ایف کینیڈی کو جاتا ہے۔ انہوں نے 1962 میں روز گارڈن بنوایا تھا۔

وائٹ ہاؤس کا کچن گارڈن جسے مشیل اوباما نے بنوایا تھا۔

مک ڈوول کہتی ہیں کہ صدر کینیڈی کو روز گارڈن بنوانے کی تحریک اس وقت ملی تھی جب انہوں نے بکنگھم پیلس کا دورہ کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ وائٹ ہاؤس کے مغربی حصے میں واقع اوول آفس کے باہر بھی ایک ایسا ہی باغ ہو۔جو پھولوں اور پودوں سے بہت زیادہ بھرا ہوا ہو۔

موجودہ دور میں لوگ جس روز گارڈن کا نظارہ کرتے ہیں، وہ ایک تبدیل شدہ باغ ہے۔ اسے 2020 میں خاتون اول ملانیا ٹرمپ نے نیا روپ دیا تھا۔انہیں اس پر بہت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے وہاں موجود سیب کے 10 درخت کٹوا دیے تھے۔

وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن کا ایک نظارہ

مک ڈوول کہتی ہیں کہ روزگارڈن کے حوالے سے ملانیا پر تنقید غیر منصفانہ تھی کیونکہ اس کی تزئین و آرائش کے لیے بڑے لوگوں کے ایک گروپ نے تحقیق کی تھی۔اس باغ کو نئی بنیاد کی ضرورت تھی۔ اس پر کام کے آغاز سے ہی مسائل تھے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کیا مجھے سیب کے درختوں کی کمی محسوس ہوگی۔ ہاں ہوگی۔ لیکن کیا ہم ان درختوں کے نیچے گلاب اگا سکتے ہیں؟ اس کا جواب نہیں میں ہے۔ بلکہ یہ تقریباً ناممکن ہے۔

باغ کی سیر پر آنے والے وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان کی ایک دائرہ نما راہداری پر چلتے ہیں، وہاں ان کی نظر وائٹ ہاؤس کی شہد کی مکھیوں اور ان کے چھتوں پر بھی پڑتی ہے۔ اور اس کے بعد ایک کچن گارڈن ہے جسے 2009 میں خاتون اول مشیل اوباما نے بنوا تھا۔ خاتون اول جل بائیڈن نے اس میں پھولوں کے تختے کا اضافہ کیا۔

وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن کے سفید گلاب اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے باغ کی یہ سیر جیکولن کینیڈی گارڈن پر آ کر ختم ہوتی ہے۔اسے خاتون اول کا باغ (First Lady’s Garden) بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس جگہ 1903 سے ہی ایک باغ موجود تھا لیکن اسے نئی شکل و شباہت 1965 میں ملی۔ اسے ریچل لیمبرٹ میلن نے ڈیزائن کیا تھا۔ انہوں نے کینیڈی فیملی کے لیے روزگارڈن کی بھی تزئین و آرائش کی تھی۔اس باغ میں اب سال کے زیادہ تر حصے میں پھول کھلے رہتے ہیں کیونکہ یہاں موسم کی مناسبت سے پھول لگائے جاتے ہیں۔

باغ کی سیر پر آنے والے وائٹ ہاؤس کا بھی شاندار نظارہ کرتے ہیں۔مک ڈدول کہتی ہیں کہ یہ ہماری مشترکہ دلچسپی کی چیز ہے اور ہمیں اس کا لطف اٹھانا چاہیے۔

(وی او اے نیوز)