|
نئی دہلی۔۔ بھارتی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں افغانستان اور مالدیپ کی امداد میں اضافے کو ماہرین اہم سفارتی اقدام قرار دے رہے ہیں۔
نئے بجٹ میں ہمسایہ ملکوں کے لیے مختص بجٹ میں 20 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس یہ بجٹ تقریباً 57 ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر 67 ارب روپے ہو گیا ہے۔
بھارت نے ’ہمسایہ پہلے‘ کی پالیسی کے تحت بیرونی ترقیارتی منصوبوں کے لیے مختص فنڈ کا 64 فی صد پڑوسی ملکوں کے لیے مختص کیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے بجٹ کو گزشتہ سال کے مقابلے میں د گنا کر دیا ہے۔گزشتہ برس یہ 50 کروڑ تھی جو اب بڑھ کر ایک ارب روپے ہو گئی ہے۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے یکم فروی کو پارلیمان میں عام بجٹ پیش کیا جس میں بعض ہمسایہ ملکوں کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کیا گیا اور بعض کے لیے مختص بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ جب کہ کچھ ملکوں کے لیے سابقہ بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بجٹ میں اضافے کو بھارت کا ایک سفارتی قدم تصور کیا جانا چاہیے۔ بھارت اس اقدام سے یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ ہمسایہ ملکوں سے بہتر رشتے چاہتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت دوسرے ملکوں سے اپنے تعلقات کے استحکام اور اپنے جیو پولیٹیکل مفادات کے تحفظ کے لیے دوسرے ملکوں کے لیے قرض، رعایتی مالیاتی اسکیم اور مالی امداد کے ذریعے وہاں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتا ہے۔
یہ منصوبے زیادہ تر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور اہلیت سازی سے متعلق ہوتے ہیں۔
بھوٹان کے لیے سب سے زیادہ 21 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ سال یہ رقم 20 ارب 68 کروڑ روپے تھی۔ اس رقم کا استعمال بنیادی ڈھانچے، ہائیڈرو پراجیکٹ اور مالی تعاون کیا جائے گا۔
'اس میں سفارتی پیغام پوشیدہ ہے'
سینئر تجزیہ کار نیلوفر سہروردی کے خیال میں ابھی بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ آگے اس کا کتنا استعمال ہوتا ہے کتنا نہیں یہ دیکھنے کی بات ہو گی۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں سفارتی پیغام پوشیدہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بھوٹان ایک چھوٹا ملک ہے اور ضرورت مند بھی ہے۔ لیکن بھارت نے اس کے لیے بجٹ میں جو اضافہ کیا ہے وہ بھوٹان اور چین دونوں کے لیے پیغام بھی ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بھوٹان میں چین کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ وہ بھارت کا ایک پرانا دوست ملک رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی طرف اس کا جھکاؤ بھارت کے لیے تشویش کا سبب ہو سکتا ہے۔
نیلوفر سہروردی کہتی ہیں کہ حالیہ دنوں میں بھارت اور بھوٹان کے دو طرفہ تعلقات بہت مضبوط ہوئے ہیں۔ دو سال قبل وہاں کے طلبہ کو یہاں بلایا گیا تھا۔ اسی طرح وہاں پڑھانے کے لیے بھارت سے اسکالرز بھیجے گئے تھے۔
مالدیپ کے بجٹ میں بھی خاصا اضافہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال مالدیپ کے لیے چار ارب سات کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جو اب بڑھا کر چھ ارب روپے کر دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے کے تحت انتخاب لڑا تھا۔ ان کی حکومت کے قیام کے بعد بھارت سے مالدیپ کے تعلقات خراب ہو گئے تھے۔
گزشتہ سال جنوری میں وہاں کے بعض ارکانِ پارلیمان کی جانب سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بارے میں متنازع بیانات دیے گئے تھے۔
انھوں نے مودی کے لکش دیپ کے دورے کے بارے میں کہا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم مالدیپ کو ایک سیاحتی مرکز کے طور پر الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں۔
محمد معیزو نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد خلافِ روایت پہلے بھارت کا دورہ کرنے کے بجائے چین کا دورہ کیا تھا۔ اس معاملے نے بھی تعلقات پر اثر ڈالا تھا۔ حالاں کہ مالدیپ کا کہنا تھا کہ بھارت دورے کی تاریخ پر فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے چین کا دورہ کیا تھا۔
اگست 2024 میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مالدیپ کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے کہا تھا کہ فریقین کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر ہیں۔
محمد معیزو نے بھی بھارت کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے گزشتہ سال یوم آزادی پر بھارت کو مبارک باد پیش کی تھی جس پر وزیر ِاعظم مودی نے کہا تھا کہ بھارت مالدیپ کو ایک اہم دوست سمجھتا ہے اور دونوں ملک عوام کے مفاد میں مل کر کام کریں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تعلقات کی خرابی کے بعد ان میں بہتری کے پیش نظر مالدیپ کے لیے بجٹ میں کیے جانے والے اضافے کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
افغانستان کی امداد میں اضافہ
افغانستان کے لیے بھارت کا بجٹ مالی سال 2024-2023 میں دو ارب سات کروڑ روپے تھا۔ مالی سال 2025-2024 میں اسے کم کرکے دو ارب روپے کر دیا گیا تھا۔
لیکن پھر اس پر نظر ِثانی کی گئی اور اسے کم کرکے 50 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ لیکن مالی سال 2026-2025 کے لیے اس کو دگنا کرکے ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
بھارت نے چا ہ بہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے 100 کروڑ (ایک ارب) روپے مختص کیے ہیں۔ یہ منصوبہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے لیے ایک کلیدی راہداری ہے۔
تجزیہ کار ابھے کمار کے خیال میں بھارت نے افغانستان میں اپنے پروگراموں کو انسانی امداد تک محدود رکھا ہے۔
واضح رہے کہ سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے اسی سال کے شروع میں دبئی میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی تھی۔ بھارت اور طالبان کے درمیان وہ پہلا اعلیٰ سطحی رابطہ تھا۔
نیلوفر سہروردی کا کہنا ہے کہ بھارت اپنے اقدامات سے یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنے تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہتا۔ بنگلہ دیش کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات میں پہلے سردمہری آئی اور پھر کسی حد تک کشیدگی پیدا ہو گئی۔
بھارت نے بنگلہ دیش اور نیپال کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ اسے ڈھاکہ کو ایک سخت پیغام تصور کیا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے لیے بھارت کا بجٹ 120 کروڑ (ایک ارب 20 کروڑ) روپے ہے۔
نیپال اور سری لنکا کے بجٹ میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ میانمار کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
تجزیہ کار ابھے کمار وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے پڑوسی ملکوں کی امداد یا وہاں جاری پروگراموں کے تعلق سے بجٹ مختص کیے جانے کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ تاہم وہ بھارت کی داخلہ و خارجہ پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ہمیں امید کی جانی چاہیے کہ اس بجٹ کا صحیح استعمال ہوگا۔ حکومت کو دیگر شعبوں میں بھی پیش قدمی کرنی چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے آئین میں ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مبنی بر امن رشتوں کے قیام کی بات کہی گئی ہے۔ لہٰذا بھارتی حکومت کو آئین پر عمل کرتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کی دیرینہ خارجہ پالیسی پر عمل کرے اور اندرون ملک ایسی کارروائیاں نہ ہونے دے جن کا پڑوسی ملکوں یا وہاں کے عوام پر غلط اثر پڑے۔
فورم