بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع بجاپور میں ماؤ نواز باغیوں سے جھڑپ کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 22 اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
اتوار کو بھارتی حکام نے تصدیق کی کہ ہفتے کو چھتیس گڑھ میں ماؤ نواز باغیوں کے خلاف ایک آپریشن کے دوران سینٹرل ریزرو پولیس کے کوبرا یونٹ، ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ اور اسپیشل ٹاسک فورس کے اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملہ رواں سال باغیوں کی جانب سے کیے گئے بدترین حملوں میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے۔
دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق جھڑپ کے دوران 31 اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جب کہ ایک اہل کار اب بھی لاپتا ہے۔
ہفتے کو دو ہزار سے زائد سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ماؤ نواز باغیوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے بجاپور اور سکما اضلاع کے نواحی جنگلات میں ایک بڑا آپریشن شروع کیا تھا۔
آپریش کے دوران گھات لگائے ماؤ نواز باغیوں اور فورسز کے درمیان تین گھنٹے سے زائد تک جھڑپ جاری رہی۔
انسپکٹر جنرل پولیس پی سندر راج نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں کم از کم نو باغی بھی ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔
اتوار کو بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ریاست چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپیس باغیل سے رابطہ کیا اور صورتِ حال سے متعلق معلومات حاصل کیں۔
انہوں نے سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ڈائریکٹر جنرل کلدیپ سنگھ کو ہدایت کی کہ وہ چھتیس گڑھ کا دورہ کریں۔
وزیرِ داخلہ نے ایک ٹوئٹ میں چھتیس گڑھ میں ماؤ نواز باغیوں کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہونے والے اہل کاروں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔
مذکورہ واقعے پر بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ میرے دل ان تمام اہل کاروں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں جو چھتیس گڑھ میں ماؤ باغیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔
مائو نواز باغی بھارت کی 20 سے زائد ریاستوں میں سرگرم ہیں۔ تاہم یہ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں زیادہ متحرک ہیں اور ان علاقوں کے جنگلات اور دوردراز کے علاقوں میں یہ اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
یہ محروم اور پسے ہوئے طبقات کو حقوق دلانے کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ تحریک 1960 کی دہائی میں مغربی بنگال کے نکسل باڑی گاؤں سے شروع ہوئی تھی اور اسے بھارت کے محروم اور پسے ہوئی طبقات میں پذیرائی حاصل ہوئی۔
بھارتی حکمران اس تحریک کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں جب کہ عوامی سطح پر ان کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔