انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ بھارت میں ماؤ نواز باغیوں کے زیرِ اثر علاقوں میں سرگرم سماجی رضاکاروں کو باغیوں اور حکومت دونوں کے حملوں اور مخاصمت کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے ۔
تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت کے ان دور دراز مشرقی اور وسطی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف رضاکاروں کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیا ہے جو ماؤ نواز باغیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس ان علاقوں میں سرگرم امدادی اہلکاروں کو ماؤ باغیوں کا ہمدرد جب کہ باغی انہیں پولیس کا جاسوس سمجھتے ہیں جس کے باعث رضاکاروں کی سلامتی کو ہر دو جانب سے خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت کی مشرقی اور وسطی پسماندہ ریاستوں، خصوصاً اوڑیسہ، جھاڑکھنڈ اور چھتیس گڑھ کا وسیع رقبہ ماؤ باغیوں کی دسترس میں ہے اور انہیں ان علاقوں میں بسنے والی قبائلیوں کی حمایت حاصل ہے۔
رپورٹ میں 'ایچ آر ڈبلیو' کے ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے بھارتی پولیس پر علاقے کے غریب عوام کی مدد کرنے والے رضاکاروں کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
میناکشی کے بقول پولیس ان امدادی رضاکاروں کو بطورِ خاص انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتی ہے جو اس کے لیے جاسوسی کرنے سے انکاری ہوں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امدادی رضاکاروں کی سلامتی کو ماؤ باغیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب وہ باغیوں کے مظالم کی تفصیلات منظرِ عام پر لائیں۔ رپورٹ کے مطابق ماؤ باغی ان امدادی اہلکاروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں جو حکومتی منصوبوں سے منسلک ہوں۔
باغیوں کا موقف ہے کہ وہ قبائلی عوام کے حقوق کے تحفظ اور سرکار کی جانب سے ان کی زمینوں پر قبضے کےخلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔
بھارتی حکومت ماؤ باغیوں کو اپنی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا داخلی خطرہ قرار دیتی ہے اور حکام باغیوں کا زور توڑنے کے لیے ان کےخلاف پولیس کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ان کے زیرِاثر علاقوں میں غربت اور پسماندگی دور کرنے کی کوششوں پر بھی زور دیتے آئے ہیں۔
تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' نے اپنی ایک رپورٹ میں بھارت کے ان دور دراز مشرقی اور وسطی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف رضاکاروں کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیا ہے جو ماؤ نواز باغیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس ان علاقوں میں سرگرم امدادی اہلکاروں کو ماؤ باغیوں کا ہمدرد جب کہ باغی انہیں پولیس کا جاسوس سمجھتے ہیں جس کے باعث رضاکاروں کی سلامتی کو ہر دو جانب سے خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت کی مشرقی اور وسطی پسماندہ ریاستوں، خصوصاً اوڑیسہ، جھاڑکھنڈ اور چھتیس گڑھ کا وسیع رقبہ ماؤ باغیوں کی دسترس میں ہے اور انہیں ان علاقوں میں بسنے والی قبائلیوں کی حمایت حاصل ہے۔
رپورٹ میں 'ایچ آر ڈبلیو' کے ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے بھارتی پولیس پر علاقے کے غریب عوام کی مدد کرنے والے رضاکاروں کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
میناکشی کے بقول پولیس ان امدادی رضاکاروں کو بطورِ خاص انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتی ہے جو اس کے لیے جاسوسی کرنے سے انکاری ہوں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امدادی رضاکاروں کی سلامتی کو ماؤ باغیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب وہ باغیوں کے مظالم کی تفصیلات منظرِ عام پر لائیں۔ رپورٹ کے مطابق ماؤ باغی ان امدادی اہلکاروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں جو حکومتی منصوبوں سے منسلک ہوں۔
باغیوں کا موقف ہے کہ وہ قبائلی عوام کے حقوق کے تحفظ اور سرکار کی جانب سے ان کی زمینوں پر قبضے کےخلاف مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔
بھارتی حکومت ماؤ باغیوں کو اپنی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا داخلی خطرہ قرار دیتی ہے اور حکام باغیوں کا زور توڑنے کے لیے ان کےخلاف پولیس کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ان کے زیرِاثر علاقوں میں غربت اور پسماندگی دور کرنے کی کوششوں پر بھی زور دیتے آئے ہیں۔