روس اور ایران کے بدلتے تعلقات

روس نے اقوام متحدہ کی طرف سے ایران کے خلاف زیادہ سخت پابندیوں کے حق میں ووٹ دیا ہے اور ایران کو طیارہ شکن میزائلوں کی فراہمی پر کام روک دیا ہے۔

عام طور سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ایران کے ساتھ روس کے اقتصادی مفادات کی وجہ سے روس اس کا زبردست حامی ہے۔ اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے روس ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کر تا رہا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ روس اور ایران کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے جون پارکر کہتے ہیں کہ ’’ 1997 میں دونوں ملکوں نے تاجکستان میں خانہ جنگی ختم کرانے میں تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد سے تعلقات جتنے خراب آج کل ہیں، پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ آج کل دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بہت کم ہے۔ اچھے حالات میں سالانہ تجارت کی مالیت تین اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہوتی ہے۔ یہ روس اوراسرائیل کے درمیان ہونے والی تجارت سے بہت زیادہ نہیں ہے جب کہ اسرائیل کی آبادی ایران کی آبادی کے تقریباً دسویں حصے کے برابر ہے ۔ ایران اور ترکی کے درمیان تجارت اس سے کہیں زیادہ ہے اور چین کے ساتھ تو اور بھی زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی تعلقات کی کوئی اتنی اہمیت نہیں‘‘۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ روسی عہدے داروں کو یقین ہو گیا ہے کہ ایران اس مقصد کے تحت یورینیم افژودہ کر رہا ہے کہ اس کے پاس کم از کم نیوکلیئر بم بنانے کی صلاحیت موجود ہو۔ کولمبیا یونیورسٹی کے رابرٹ لیگ ولڈ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ’’روسیوں کی نظر میں یہ خطرہ اتنا فوری نوعیت کا تو نہیں ہے جتنا امریکی سمجھتے ہیں لیکن اُنھوں نے یورپیوں اور امریکیوں کی یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ ایران کے ارادے اچھے نہیں ہیں۔ روسیوں کو ایران کے بارے میں تشویش ہے اور وہ بہرحال یہ نہیں چاہتے کہ ایران نیوکلیئر اسلحہ حاصل کر لے۔ میرے خیال میں اس بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیئے‘‘۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ایران پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جس کے تحت ایران پر زیادہ سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں، اگرچہ بظاہر قرارداد کی زبان روس اور چین کے کہنے پر نرم کر دی گئی تھیں۔

کیلی فورنیا میں مانیٹری کے سینٹر فار نان پلوفیریشن اسڈیڈیز سے وابستہ گوقھرمکیتھزانیو کہتی ہیں کہ روسی عہدے داروں کے ایران پر پابندیاں عائد کرنے پر رضا مند ہونے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔’’

وہ یہ بات بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل یہ نہ محسوس کرنے لگیں کہ ان کے پاس فوجی کارروائی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں روس ایک طرف تو ایران سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ اس کی غیر مشروط حمایت نہیں کرے گا اور دوسری طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ فوجی کارروائی کی نوبت آجائے‘‘۔

تہران اور ماسکو کے درمیان خراب ہوتے ہوئے تعلقات کی ایک اور مثال یہ ہے کہ روس نے ایران کو S-300 طیارہ شکن میزائلوں کی فراہمی منجمد کر دی ہے جن کا سودا2007 ء میں ہوا تھا۔

جہاں تک بشہر کے نیوکلیئر بجلی گھر کا تعلق ہے، تو روسی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ چند مہینوں میں کام شروع کر دے گا۔

گوقھر کہتی ہیں کہ روس کے حالیہ اقدامات کی روشنی میں ایرانی محسوس کرتے ہوں گے کہ روس نے ان کے ساتھ دغا کیا ہے۔ یو ں تو ایران کے سیاست دانوں کی بڑی تعداد نے کبھی بھی روس پرصحیح معنوں میں تکیہ نہیں کیا تھا لیکن وہ ظاہر یہی کرتے ہیں جیسے ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران اور روس کے درمیان خراب تعلقات کی وجہ سے، جہاں تک ایران کے نیوکلیئر عزائم کا تعلق ہے، ماسکو تہران کو نیوکلیئر پروگرام سے باز رکھنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس بارے میں کولمبیا یونیورسٹی رابرٹ لیگ ولڈ کا کہنا ہے کہ ’’یہ سمجھنا غلط ہے کہ روسی کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں روس کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے وہ ایران کے طرز عمل کو متاثر کر سکے۔ اگر کبھی ایسا ہونے لگے کہ ایرانی بین الاقوامی برادری کے دبا ؤ کو تسلیم کرنے لگیں، تو ایسی صورت میں روس بھی اس عمل میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن صرف روس کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس معاملے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکے‘‘۔

تجزیہ کار کہتےہیں کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کس قسم کے دباؤ سے ایران کو اپنے نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی پابندیاں ایک حد تک ہی اثر انداز ہو سکتی ہیں، اور یہ مسئلہ بھی ہے کہ ان پر عمل در آمد کرانے کو کوئی بین اقوامی نظام موجود نہیں ہے۔