|
آپ کے مشاہدے میں ایسے لوگ، خاص طور بچے آتے ہوں گے جو ایک لمحے کو سکون سے نہیں بیٹھ سکتے اور ہر وقت نہ صرف کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کی توجہ بھی کسی ایک چیز پر مرکوز نہیں رہتی اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اصل میں وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے بہت ایکٹو یا چونچال ہیں اور ان کے اندر بہت توانائی ہے جو انہیں ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتی رہتی ہے، جب کہ نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل میں یہ ایک ڈس آرڈر یا بیماری ہے جس کا نام اے ڈی ایچ ڈی(Attention-deficit/hyperactivity disorder) ہے، یعنی توجہ کی کمی اور بہت زیادہ فعالیت کا ڈس آرڈر۔
ایک حالیہ مطالعاتی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ بالغ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر 17 میں سے ایک امریکی میں اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص ہو چکی ہے۔
اس مرض کی علامتیں بچپن میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، لیکن ان میں سے نصف میں اس کی تشخیص 18 سال یا اس سے زیادہ عمر میں پہنچنے کے بعد ہوتی ہے۔
کچھ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کی تشخیص کے لیے آنے والے افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
SEE ALSO: نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے مذہبی اور ثقافتی پس منظر سے واقفیت ضروری ہے، ڈاکٹر فرحاوہائیو یونیورسٹی کے ایک ماہر نفسیات جسٹن بیرٹیرین کہتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ہمارے کلینک میں اس عارضےکے سلسلے میں آنے والے افراد کی تعداد دو گنا ہو گئی ہے۔
بالغوں میں اے ڈی ایچ ڈی کی علامات کیا ہیں؟
اس مرض میں مبتلا بالغ افراد کے لیے کسی چیز پر توجہ دینا اوراپنے جذباتی رویوں پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ مرض موروثی بھی ہوسکتا ہے۔ مثبت بات یہ ہے کہ یہ ایک قابل علاج عارضہ ہے جس کا علاج دوائیوں یا نفسیاتی طریقوں یا پھر دونوں سے کیا جاتا ہے۔
بالغ افراد میں اس کی نمایاں علامات میں اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے، ذمہ داریاں نبھانے ، اپنے وقت کی منصوبہ بندی کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کچھ لوگ یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ وہ چیزوں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتے، بے چین رہتے ہیں، ان کا موڈ اور مزاج بدلتا رہتا ہے، جذباتی ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے تعلقات کو نقصان پہنچتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اے ڈی ایچ ڈی میں مبتلا شخص کس کیفیت سے گزرتا ہے، اس کا اظہار ریاست مین کی ایک 62 سالہ خاتون جوڈی سینڈلر نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ آپ کے اندر ایک انجن ہے جو ہمیشہ سے چل رہا ہے۔اور آپ اسے دوا لیے بغیر بند نہیں کر سکتے۔
سینڈلر میں اس مرض کی تشخیص اس وقت ہوئی تھی جب وہ 50 کے پیٹے میں تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جن بالغ افراد میں اے ڈی ایچ ڈی کی نشاندہی ہوتی ہے، اصل میں انہیں یہ مرض بچپن سے ہی لاحق ہوتا ہے اور اس وقت اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
امریکہ میں 70 لاکھ سے زیادہ بچے اے ڈی ایچ ڈی میں مبتلا ہیں
اے ڈی ایچ ڈی امریکی بچوں میں سب سے زیادہ پایا جانے والا ذہنی عارضہ ہے اور 70 لاکھ سے زیادہ بچوں میں اس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکے اس میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔
SEE ALSO: 'بد روحیں میرا پیچھا کر رہی ہیں'کوویڈ ۔19 کے دنوں میں اے ڈی ایچ ڈی میں اضافہ ہوا
ایک حالیہ حکومتی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ بچوں اور بڑوں دونوں میں اے ڈی ایچ ڈی کا مرض بڑھ رہا ہے۔بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز(CDC) کی انجلیکا کلاؤسن کہتی ہیں کہ ہمارے پاس بالغوں سے متعلق طویل عرصے کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن کوویڈ۔19 کے پھیلاؤ کے دنوں میں اے ڈی ایچ ڈی کی ادویات کی مانگ اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔
2023 کا ایک مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ادویات کی طلب میں یہ اضافہ بطور خاص خواتین کی جانب سے تھا۔
کوویڈ۔19 کے عرصے میں گھروں میں بند ہونے کی وجہ سے اے ڈی ایچ ڈی کے کیسز بڑھ گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس مرض کی تشخیص اور علاج آسان نہیں ہےکیونکہ طبی ماہر سے وقت لینے میں مہینوں لگ سکتے ہیں اور اس کے علاج پر ہزاروں ڈالر صرف ہو سکتے ہیں۔
امریکن پروفیشنل سوسائٹی آف اےڈی ایچ ڈی، بالغوں کا علاج کرنے والے ماہرین کے لیے ، تشخیص اور علاج کے سلسلے میں گائیڈ لائن تیار کر رہی ہے جس کا اجرا اس سال کے آخر تک متوقع ہے۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)