بولان میں عسکریت پسندوں کا شاہراہ پر ناکہ، حکومتی رکنِ اسمبلی کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا

فائل فوٹو

  • بلوچستان میں کوئٹہ سبی مرکزی شاہراہ پر عسکریت پسندوں نے ناکہ لگایا تھا۔
  • پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی میر لیاقت لہڑی اپنی محافظوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے جب ان کو روکا گیا۔
  • رکن اسمبلی کے تمام محافظوں نے ایک ایک کر کے اسلحہ عسکریت پسندوں کے حوالے کیا۔
  • مسلح افراد نے لیاقت لہڑی کو گاڑی سے اتارا۔ ان کا تعارف پوچھا اور مکمل تصدیق کے بعد انہیں جانے کی اجازت دی: قریبی ساتھی
  • مسلح افراد نے قومی شاہراہ پر گرین ہوٹل، بی بی نانی اور پیر غائب کے مقام پر ناکہ لگایا تھا: پولیس
  • سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بولان میں آپریشن میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔

کوئٹہ — بلوچستان کے ضلع کچھی کےعلاقے میں عسکریت پسندوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکنِ صوبائی اسمبلی میر لیاقت لہڑی کو ناکے پر روک کر ان کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا۔

یہ واقعہ اتوار کو پیش آیا جب کوئٹہ سبی مرکزی شاہراہ پر عسکریت پسندوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا اور رکنِ اسمبلی میر لیاقت لہڑی اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے۔ عسکریت پسندوں نے اس مقام پر دیگر گاڑیوں کو بھی روکا ہوا تھا۔

عسکریت پسندوں کے اس ناکے پر رکنِ اسمبلی کے تمام محافظوں نے ایک ایک کر کے اسلحہ ان کے حوالے کیا۔

اطلاعات کے مطابق عسکریت پسند اسلحہ لینے کے بعد قریبی پہاڑوں پر چلے گئے جب کہ سیکیورٹی حکام ان سے مقابلہ کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق سبی میں تبلیغی اجتماع ختم ہوا تھا جس کے شرکا کوئٹہ سبی شاہراہ سے اپنے اپنے علاقوں کی جانب جا رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی اپنے ذاتی گارڈز کے ہمراہ اسی اجتماع سے واپس آ رہے تھے۔

اجتماع میں شرکت کے بعد کوئٹہ آنے والے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایاکہ بولان میں پیپلز پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ میر لیاقت لہڑی کے قافلے کو مسلح افراد نے روک لیا تھا جس کے بعد ان کو گاڑی سے اتار لیا گیا تھا۔

اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں جن میں نظر آ رہا ہے کہ مسلح افراد نے رکن اسمبلی کی گاڑی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ میر لیاقت لہڑی اپنے گارڈز کے ہمراہ موجود ہیں۔

شاہراہ پر کئی عسکریت پسند بھی ہیں جن کے چہرے چھپے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک شخص رکنِ اسمبلی کے محافظوں سے اسلحہ جمع کر رہا ہے۔

ویڈیوز میں مسلح افراد راکٹ لانچرز اور دیگر بھاری اسلحے سے لیس نظر آ رہے ہیں۔

میر لیاقت لہڑی کے قافلے میں شامل ان کے ایک قریبی ساتھی نے بھی واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مسلح افراد نے انہیں گاڑی سے اتارا۔ ان کا تعارف پوچھا اور مکمل تصدیق کے بعد انہیں جانے کی اجازت دی۔

بعد ازاں یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ رات گئے میر لیاقت لہڑی بحفاظت اپنے ساتھیوں اور محافظوں کے ہمراہ گھر پہنچ گئے ہیں۔

مچھ پولیس کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) پیر بخش بگٹی نےبھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مسلح افراد نے قومی شاہراہ پر گرین ہوٹل، بی بی نانی اور پیر غیب کے مقام پر شام کو اس وقت ناکہ لگایا جب سبی میں تین روزہ تبلیغی اجتماع کے بعد بڑی تعداد میں لوگ کوئٹہ اور دیگر شہروں کی جانب واپس جارہے تھے۔

ایس ایچ او مچھ نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے اطلاع ملنے پر ان مقامات کا گھیراؤ کرکے مسلح افراد کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔

پیر بخش بگٹی نے بتایا کہ اس مقام پر ایک راہ گیر ہلاک جب کہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے مچھ کے سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے راہ گیر کی شناخت نبی داد کے نام سے ہوئی ہے جو کوئٹہ کے رہائشی تھے۔

پولیس افسر نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ شہری کس کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے اور نہ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں عسکریت پسندوں کا کیا نقصان ہوا۔

البتہ سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بولان میں آپریشن میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔

لیکن اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس حوالے سے سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے۔

تاہم مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں میں وقفے وقفے سےجھڑپیں ہوئیں جن کی زد میں مسافر بھی آئے ۔ کارروائی کے نتیجے میں قومی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بحال کر دیا گیا ہے۔

SEE ALSO: سات مسافروں کی ہلاکت؛ بلوچستان میں شناخت کے بعد قتل کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟

بولان میں ناکہ لگا کر مسافروں کی شناخت اور فورسز سے جھڑپوں کے حوالے سے تاحال کسی تنظیم کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا۔

بلوچستان کا ضلع کچھی ایک قدیم علاقہ ہے جو درہ بولان کے ساتھ سنگلاخ پہاڑی سلسلے پر واقع ہے۔درہ بولان کے پہاڑی سلسلے میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔

ماضی میں بھی اس علاقے میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے قومی شاہراہ پر ناکے لگانے اور فورسز پر حملوں کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

گزشتہ برس 2024 میں مسلح افراد نے بولان میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا جس میں پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک جب کہ کئی زخمی ہوئے تھے۔

SEE ALSO: بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی؛ 'مسلح افراد نے وارننگ دی کہ پہاڑوں کی طرف مت آنا'

گزشتہ ہفتے بھی بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ پر بارکھان کے علاقے رڑکن میں مسلح افراد نے ناکہ لگا کر ایک بس کو روکا تھا اور اس میں سوار افراد کے شناختی کارڈ چیک کیے تھے۔ عسکریت پسندوں نے پنجاب سے تعلق کی بنیاد پر سات افراد کو بس سے اتار کر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی ذمے داری کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔

رواں سال بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر مسلح افراد کی جانب سے ناکہ لگا کر روڈ بلاک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے بعد صوبے میں قومی شاہراہوں کو سفر کے لیے غیر محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔

بلوچستان حکومت نے قومی شاہراہوں پر سفر کے لیے قواعد و ضوابط لاگو کیے ہیں جن کے تحت بس مالکان کو سیکیورٹی گارڈز تعینات کرنے، رات میں سفر نہ کرنے اور قافلے کی شکل میں سیکیورٹی کے حصار میں سفر کرنے جیسی شرائط شامل ہیں۔