ڈھاکہ: مشتعل ہجوم کا حملہ، بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کا گھر مسمار

  • ہجوم نے بدھ کی شب پہلے گھر میں توڑ پھوڑ شروع کی، بعد ازاں اس کے کئی حصوں کو آگ لگا دی۔
  • شیخ مجیب کے گھر کو مسمار کرنے کے لیے بھاری مشینری بھی طلب کی گئی جس کی مدد سے گھر ایک بڑا حصہ گرایا جا چکا ہے۔
  • جمعرات کی صبح بھی گھر کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔
  • رپورٹس کے مطابق سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کےآبائی گھر کو بھی نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔
  • مشتعل ہجوم کی جانب سے توڑ پھوڑ اس وقت شروع ہوئی جب شیخ حسینہ نے اپنے حامیوں سے آن لائن آڈیو خطاب شروع کیا تھا۔

ویب ڈیسک—بنگلہ دیش میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین نے ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کا گھر نذرِ آتش کر دیا ہے جس کے بعد اب اسے بھاری مشینری کے ذریعے گرایا جا رہا ہے۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مشتعل ہجوم نے شیخ حسینہ کے ایک آئن لائن خطاب کے بعد شیخ مجیب کے گھر دھاوا بولا،وہاں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔

اس مکان کو دہان منڈی کا گھر نمبر 32 کہا جاتا ہے اور یہ وہی گھر ہے جہاں 1975 میں شیخ مجیب کو قتل کر دیا گیا تھا۔بعد ازاں ان کی صاحبزادی شیخ حسینہ نے اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔

شیخ حسینہ نے اپنی جماعت عوامی لیگ کے حامیوں سے آڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہا کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ چھ ماہ میں جنگِ آزادی کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان نے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد 1972 سے ڈھاکہ کے علاقے دہان منڈی میں اپنی رہائش گاہ سے ملک کا انتظام چلایا تھا۔ وہ کسی سرکاری عمارت میں نہیں رہتے تھے۔

آڈیو خطاب میں شیخ حسینہ نےکہا کہ ہم ذاتی طور پر کبھی بھی دہان منڈی کے گھر نمبر 32 میں نہیں رہے کیوں کہ اسے میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ یہاں دنیا کے کئی سربراہِ مملکت آ چکے ہیں۔ اس گھر کو کیوں گرایا جا رہا ہے، اس گھر کا کیا جرم ہے؟

واضح رہے کہ شیخ حسینہ کے خطاب سے قبل ان کی سیاسی جماعت کے طلبہ ونگ ’چھاترا لیگ‘ نے اعلان کیا تھا کہ آج شیخ حسینہ آن لائن خطاب کریں گی۔ اس اعلان کے بعد ہی سوشل میڈیا پر دہان منڈی 32 کی جانب ’بلڈوزر جلوس‘ کے اعلانات سامنے آنے لگے تھے۔

وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے مطابق شیخ مجیب کے گھر کو’بنگابندھو میموریل میوزیم‘ کا نام دیا گیا تھا جب کہ مقامی افراد بنگلہ زبان میں اسے ’بنگا بندھو بھابن‘ بھی کہتے تھے۔

اس مقام پر موجود صحافیوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رات لگ بھگ دو بجے گھر کے کچھ حصے گرانے کے لیے بھاری مشینری بھی لائی گئی۔ کئی افراد نے بتایا ہے کہ گھر کا ایک بڑا حصہ رات میں ہونے والی کارروائی میں منہدم ہو چکا تھا جب کہ صبح بھی ہیوی مشینری کی مدد سے اس کے انہدام کا عمل جاری تھا۔

دہان منڈی 32 کے قریب موجود صحافیوں نے بتایا کہ ہجوم کی جانب سے مسلسل نعرے بازی کی جا رہی تھی اور اس دوران سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت ’عوامی لیگ‘ پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔

دہان منڈی پولیس اسٹیشن کے حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مشتعل افراد کے ایک گروہ نے دھان منڈی 32 کے ایک گھر کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔ تاہم یہ معاملہ کب پیش آیا اور اس کا درست وقت بتانا ممکن نہیں۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والی طلبہ تحریک کے کنوینر حسنات عبد اللہ نے بدھ کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ ’’بنگلہ دیش آج فسطائیت کی زیارت گاہ سے آزاد ہو جائے گا۔‘‘

دہان منڈی کے قریب موجود کئی دکان داروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام کے پانچ بجے سے اس مقام پر مختلف علاقوں سے مختلف عمر کے افراد جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

مقامی افراد کے مطابق پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اس مقام پر موجود تھے جنہوں نے مشتعل ہجوم کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن لوگوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔

وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے مطابق دھان منڈی کے گھر نمبر 32 میں توڑ پھوڑ کے بعد کئی مشتعل افراد دہان منڈی پانچ میں شیخ حسینہ کے خاندانی گھر کی جانب بڑھے اور ہجوم نے اسے بھی آگ لگا دی۔

حکام کے مطابق فائر سروس کو دو مقامات پر آگ لگنے کی اطلاعات موصول ہوئیں جسے بجھانے کے لیے عملہ روانہ ہوا لیکن ہجوم نے آگ بجھانے والی گاڑیوں کو راستے میں روک لیا۔

فائر سروس کنٹرول روم کے سربراہ قریب الحسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائر سروس کی گاڑیاں آگ بجھانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں لیکن راستے میں ہجوم کی وجہ سے فائر بریگیڈ آگے نہیں بڑھ سکیں۔

واضح رہے کہ طلبہ کے احتجاج کے سبب شیخ حسینہ کی حکومت گزشتہ برس اگست میں ختم ہوئی تھی۔ اگست میں بھی ایک مشتعل ہجوم نے شیخ مجیب الرحمان کے اس آبائی گھر میں توڑ پھوڑ کی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

شیخ حسینہ کا طویل دورِ حکومت؛ جمہوریت کی جدوجہد سے عوامی مخالفت کا سفر

واضح رہے کہ اگست 2024 میں اقتدار کے خاتمے کے بعد شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہو گئی تھیں۔ انہوں نے حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار دسمبر 2024 میں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں ملک میں عبوری عبوری حکومت قائم ہے۔

بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے لیے بنائے گئے انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل سے شیخ حسینہ اور ان کے متعلقین کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف 2024 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران قتلِ عام کی منصوبہ بندی اور اپنے 15 سالہ دورِ اقتدارمیں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے بنگلہ دیش بھارت سے باضابطہ درخواست کر چکا ہے۔