بلوچستان: احتجاج اور سیکیورٹی خطرات کے باعث قومی شاہراہوں پر سفر غیر محفوظ

فائل فوٹو۔

کوئٹہ _ "یہ 12 فروری کی بات ہے میرے برادرِ نسبتی کے سینے میں تکلیف ہوئی اور ہم نے انہیں فوراً کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا۔ جب ہم مستونگ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آگئے راستہ بند ہے، ہم راستہ تبدیل کرکے کوئٹہ سکھر شاہراہ پہنچے تو بولان میں بھی احتجاج کے باعث سڑک بلاک تھی۔راستے بند ہونے کی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی اور بالآخر میرے عزیز کا راستے ہی میں انتقال ہوگیا۔ "

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے محبوب الحق بلوچستان میں آئے روز ہونے والی شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے اپنے برادرِ نسبتی کی جان بچانے کے لیے انہیں بروقت کراچی نہیں پہنچا سکے۔

انہوں نے وی او ے کو بتایا کہ دنیا سے جانے والے ان کے عزیز کو دل کا عارضہ تھا اس لیے تکلیف ہونے پر فوری ٹیکسی کا انتظام کیا گیاتھا لیکن تیز رفتار سواری ہونے کے باوجود راستہ طے نہیں ہوسکا۔

کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بلوچستان کی سب سے مصروف شاہراہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے سفر کرنے والے بزرگ، مریض، خواتین اور بچوں، طالب علم اور ملازمت پیشہ افراد اکثر مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔

راستوں کی بندش کا تعلق بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال سے ہے جس میں حالیہ عرصے کے دوران بے یقینی کے آثار نمایاں ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسند گروپس کی جانب سے آئے روز قومی شاہراہوں پر ناکے لگانے اور فورسز پر حملوں کے واقعات رونما ہو ئے ہیں جس کی وجہ سے راستے بند ہونے کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ بھی ہورہے ہیں۔

دوسری جانب حکومت کے خلاف احتجاج ہو یا حکومت کو کوئی احتجاج روکنا ہو دونوں ہر دوصورتوں میں شاہراہیں بند ہوجاتی ہیں۔

دو ماہ میں 76 مرتبہ شاہراہوں کی بندش

کسی مسلح کارروائی اور مظاہروں سے شاہراہیں بند ہونے علاوہ حکومت کی جانب سے راستے بند کرنے پر بھی مسافروں اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ صوبے میں گزشتہ دو ماہ کے دوران مظاہرین کی جانب سے سڑکیں کرنے کے 76 واقعات پیش آئے ہیں۔

اس کے علاوہ عسکریت پسندوں کی جانب سے شاہراہیں بند کرنے کے واقعات الگ ہیں۔

شاہد رند کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں قومی شاہراہوں پر احتجاج کرنے پر دفعہ 144 نافذ ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ تمام شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے بحال رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

مستقبل پر سوالیہ نشان

قلات سے تعلق رکھنے والی جویرہ نے وی او اے کو بتایا کہ گزشتہ دنوں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں ملازمت کے لیے انٹرویو تھا مگر جب وہ قلات سے مستونگ پہنچیں تو وہاں احتجاج کےباعث سڑک بند تھی جس کی وجہ وہ انٹرویو کے مقررہ دن اور وقت تک کوئٹہ نہیں پہنچ سکی۔

SEE ALSO: بلوچستان: گیس لینے کے لیے ایران جانے والے ٹینکرز پر حملوں میں شدت


انہوں نے بتایا کہ اگلے روز کچے راستوں سے ہوتے ہوئے بڑی مشکل سےکوئٹہ پہنچی تو نادرا آفس انتظامیہ نے تاخیر ہوجانے کی وجہ سے ان سے انٹریوو لینےسے انکار کر دیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اس نوکری کے لیے بہت کوششیں کی تھیں مگر سڑکوں کی بندش نے ان کا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔

شاہراہوں کی بندش سے تاجروں کو لاکھوں روپے کا نقصان

انجمنِ تاجران بلوچستان کے صدر رحیم آغا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کوئٹہ کراچی اور دیگر شاہراہوں کی آئے روز بندش کے باعث جہاں عوام مشکلات سے دوچار ہیں وہی تاجر کمیونٹی کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران متعدد بار سڑکوں کی بندش سے دکان داروں کا مال پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے رمضان اور عید کے سیزن میں سامان بروقت نہ پہنچنے کی وجہ سے تاجر لاکھوں روپے نقصان اٹھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی انڈسٹری موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے تاجر کراچی اور پنجاب کے مختلف شہریوں سے بھاری کرایہ ادا کرکے سامان کوئٹہ اور یہاں سے بلوچستان کے دیگر شہریوں کو منتقل کرتے ہیں۔

رحیم آغاںے کہا کہ کئی کئی دنوں مال بردار گاڑیاں پھنسی رہتی ہیں جس کی وجہ سے اشیاء خوردونوش بھی خراب ہوتا ہے۔ جب کہ سڑک بند ہونے کی صورت میں ٹرانسپورٹززیادہ کرایہ طلب کرے تو یہ نقصان بھی تاجروں ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔

SEE ALSO: گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان دوسرے نمبر پر؛ دہشت گردی میں 45 فی صد اضافہ

فضائی سفر مہنگا، ریل گاڑیاں مفقود

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر حاجی اختر کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں شاہراہوں کے غیر محفوظ ہونے کے باعث بڑے تاجروں اور مریضوں نے جب ہوائی جہاز کے ذریعےسفر کو ترجیح دی تو ٹکٹوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چیمبر کی جانب سے وفاقی حکومت اور وزات ہوابازی کو ٹکٹوں میں اضافے کانوٹس لینے کے لیے خط لکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں عدالت عالیہ بلوچستان سے بھی رجوع کرلیا ہے اور عدالت کی جانب سے تمام فریقین کو نوٹسسز بھی جاری کیے گئے ہیں۔

حاجی اختر کاکڑ کے بقول 15 سے 20 ہزار والا جہاز کا ٹکٹ اب 70 ہزار روپے تک فروخت کیا جارہا ہے۔

تاہم مختلف نجی ائیر لائنز کی ویب سائٹ پر کوئٹہ سے کراچی کی زیادہ سے زیادہ ٹکٹ کی قیمت 30 سے 35 ہزار روپے درج ہے۔

حاجی اختر کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کوئٹہ سے دیگر شہروں کے لیے 10 ٹرینیں چلتی تھیں مگر 2002 سے 2020 تک 8 ٹرینوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا ہے اور اب صرف دو ٹرینیں چلتی ہیں۔

SEE ALSO: مسافر، طیارے نہ روزگار: گوادر ایئرپورٹ ایک معما


’احتجاج کےعلاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘

دوسری جانب بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران صوبے میں بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر گم شدہ کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

تنظیم کی مرکزی آرگنائز ڈاکڑ ماہ رنگ بلوچ نے اس سلسلے میں گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ لاپتا افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جو کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

ڈاکڑ ماہ رنگ کا کہنا تھا کہ آج پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر ہیں، احتجاج کے علاوہ ہمارے پاس دوسرا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 9 روز کے بعد گزشتہ شب انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد لاپتا افراد کے لواحقین نے احتجاج ختم کیا اور کوئٹہ کو ایران سے ملانے والی بین الااقومی شاہراہ ٹریفک کے لیے بحال کردی گئی۔

اس سے قبل حب چوکی، خضدار، قلات، مستونگ، سوراب، تربت، پنجگور، بولان اور دیگر علاقوں میں مختلف اوقات میں لاپتا افرا دکے لواحقین کی جانب سے قومی شاہراہوں کو بلاک کیا جاتا رہا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ پیر 10 مارچ سے تمام قومی شاہراہیں ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے کھول دی گئی ہیں۔