پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی کوششیں جاری ہیں۔ اس عمل میں کچھ مثبت پیش رفت کے باوجود مجموعی صورتِ حال سست روی کا شکار ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے مابین فوجی تصادم کا راستہ روکنے کے لیے کوشش کی اور محاذ آرائی میں کمی لانے میں کامیاب بھی رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پاکستان کی ثالثی رکی نہیں ہے بلکہ آگے بڑھ رہی ہے تاہم ان کے بقول ثالثی کا یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے نے عمران خان کے انٹرویو کا کچھ حصہ جاری کیا ہے البتہ مکمل انٹرویو بدھ کو نشر کیا جائے گا۔
پاکستان کی ثالثی کی یہ کوششیں اس وقت سامنے آئی تھی جب گزشتہ برس حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر حملے کیے تھے۔
آرامکو کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ دونوں ممالک میں یمن میں جاری جنگ کے باعث پہلے ہی تعلقات کشیدہ تھے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ برس نیو یارک میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ اجلاس کے موقع پر صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی درخواست پر وہ، ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کے بعد عمران خان نے گزشتہ برس اکتوبر میں تہران اور ریاض کے دورے کیے تھے اور دونوں ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مشرقِ وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی فرحان بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں پاکستان کا کلیدی کردار نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرحان بخاری نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کے حوالے سے پاکستان کی منفرد حیثیت ہے کیوں کہ اسلامی تعاون تنظیم یا کوئی مسلم ملک یہ کردار ادا نہیں کر سکتا۔
فرحان بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان خطے میں کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے براہِ راست اثرات پاکستان پر پڑ سکتے ہیں لہذا پاکستان ایران اور سعودی عرب دونوں سے کشیدگی میں کمی کے لیے اپیل کرتا رہا ہے۔
دوسری جانب تجزیہ کار سے ایچ نیئر کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے دو پرانے حریف ممالک کے درمیان ثالثی کا مشکل کام عمران خان نے اپنے ہاتھ لیا ہے۔ اگر پاکستان کی کوششوں سے اس میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے تو یہ قابل تعریف بات ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایچ نیئر کا کہنا تھا کہ ابتدائی خیال یہی تھا کہ پاکستان بطور ثالث دونوں ممالک پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔ تاہم ان کے بقول پاکستان کے علاوہ کوئی اور ایسا ملک سامنے نہیں آیا جس نے کشیدگی میں کمی کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہو۔
اے ایچ نیئر کہتے ہیں کہ اگر ایران اور سعودی عرب آپس میں بات چیت چاہتے ہوں تو ایسی صورت میں پاکستان بہترین ثالث ثابت ہو سکتا ہے جو دونوں کو براہِ راست بات چیت کی میز پر لاسکے۔