پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پیر کو ریاض میں سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی۔
وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب جانے والے اعلیٰ سطحیٰ وفد میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی شامل ہیں۔
یہ دورہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرانے کی کوششوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔
سعودی عرب کے بادشاہ اور دیگر اعلٰی سعودی حکام کی پاکستانی قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں میں خطے کی موجودہ صورت حال اور تناؤ میں کمی کے لیے ممکنہ اقدامات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
سعودی عرب کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت ایران بھی جائے گی۔ منگل کو وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ایران کے صدر حسن روحانی سے ملیں گے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔ بیان کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ بڑھتی ہوئی کشیدگی پر پاکستان فکر مند ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے مسلمانوں کی یکجہتی کے بڑے مقصد اور خاص طور پر موجودہ مشکل حالات میں اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق پاکستان مسلمان ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ کے رکن ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کی پالیسی پر زور دیتا رہا ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کے سلسلے میں پاکستان کی ان کوششوں کو خاصا اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور سردار یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے۔
’’دونوں ممالک سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں، سعودی عرب اور ایران سے بھی ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ ہم تو یہ اُمید کرتے ہیں کہ مفاہمت کی جو کوشش ہے اس میں دونوں ملک تعاون کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ رواں ماہ سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم دین شیخ نمر النمر کی سزائے موت پر عمل درآمد سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی بنیاد بنا۔
شیخ نمر کی سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد تہران میں سعودی سفارت خانے جب کہ مشہد میں سعودی قونصل خانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین نے دھاوا بولا، توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی۔
ان واقعات کے ردعمل میں سعودی عرب نے اپنے ہاں موجود ایران کے تمام سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے تہران سے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے۔
سعودی عرب کے بعد اس کے اتحادی ممالک کویت، سوڈان اور بحرین نے بھی تہران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے اعلانات کر دیئے۔
اس کشیدگی کے بعد سعودی عرب کی دو اعلیٰ شخصیات نے پاکستان کے دورے کیے جن میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عدل الجبیر اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان شامل ہیں۔
تہران اور ریاض میں کشیدگی کا معاملہ پاکستان میں بھی موضوع بحث بنا رہا۔ پارلیمان کے اجلاسوں میں بھی حکومت سے کہا جاتا رہا کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدار رہ کر ثالثی کے لیے کوششیں کرے۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے تناظر میں نا دیکھا جائے کیوں کہ اس طرح اس تناؤ کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔