پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ملک کی بری فوج کے سربراہ راحیل شریف بدھ کو تین روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچے ہیں۔
اُن کے اس دورے کا مقصد رعد الشمال نامی مشترکہ فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کرنا ہے۔ پاکستان سمیت 21 ممالک سعودی عرب کے شمال میں ہونے والی ان مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
پاکستانی قیادت کو اس دورے کی دعوت سعودی عرب کے بادشاہسلمان بن عبدالعزیز السعود نے دی تھی۔
’رعد الشمال‘ نامی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کے علاوہ پاکستانی وزیراعظم اور فوج کے سربراہ سعودی قیادت سے ملاقاتیں بھی کریں گے جس میں توقع کی جا رہی ہے دفاعی شعبے میں تعاون پر بات چیت کی جائے گی۔
سعودی عرب نے گزشتہ سال دہشت گردی کے خلاف 34 سے زائد اسلامی ممالک کے اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا اور ان فوجی مشقوں میں اس اتحاد میں شامل ممالک کی افواج حصہ لے رہی ہیں۔
پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد میں شمولیت سے متعلق غیر واضح بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے پہلے یہ کہا گیا کہ وہ اس اتحاد کا حصہ ہے لیکن بعد میں یہ وضاحت کی گئی کہ ابھی اس بارے میں پاکستان کو مزید تفصیلات کا انتظار ہے اور اُس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں پاکستان کا کردار کیا ہو گا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحٰہ محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ فوجی مشقوں میں شرکت سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کا حصہ ہے۔
’’اگر اُس اتحاد میں شامل نا ہوتے تو اس طریقے سے ہر چیز میں شرکت نا ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرے۔‘‘
سعودی قیادت میں جس اتحاد کے قیام کا اعلان کیا گیا اُس میں خطے کے تین اہم ممالک ایران، شام اور عراق شامل نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تناؤ کے باعث پاکستان میں قانون سازوں اور دیگر حلقوں کی طرف سے حکومت سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ نا کرے جس سے ایران کو یہ تاثر ملے کہ پاکستان کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ اس بارے میں ایران کے خدشات کو دور کرے گا۔
’’ظاہر ہے کہ پاکستان نے خود کہا ہے کہ اس حوالے سے ہم ایران کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان اس طرف قدم اٹھاتی ہے تو وہ بہت اچھی بات ہے۔‘‘
ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ سفارتی کشیدگی کے تناظر میں پاکستان نے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش بھی کی اور رواں سال جنوری میں وزیراعظم نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کے ہمراہ اسی سلسلے میں ریاض اور تہران کے دورے بھی کیے۔