پشاور ہائی کورٹ نے مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال قتل کیس میں دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم عمران علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس سید عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے گزشتہ ہفتے انسداد دہشت گردی کی ایبٹ آباد اور پشاور کی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلے میں مرکزی مجرم عمران علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔ جب کہ تین تین سال کی سزائیں پانے والے مجرموں کی ضمانت پر رہائی کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
فیصلہ سناتے وقت ضمانت پر رہا مجرمان عدالت میں موجود تھے۔ عدالتی حکم آتے ہی انہیں فوری طور پر گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ مشال خان کے والد اقبال خان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ جب کہ اس مقدمے میں سزا یافتہ مجرموں نے بریت کے لیے اپیلیں دائر کی تھیں۔
مشال قتل کیس میں مجموعی طور پر 61 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔ جن میں 28 ملزمان عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیے گئے تھے۔
پشاور ہائی کورٹ نے جمعرات کو سنائے جانے والے فیصلے میں بری ہونے والوں کے بارے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو ہی برقرار رکھا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سات ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ جب کہ 25 ملزمان کو تین تین سال قید کی سزا ہوئی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ نے سات مجرموں کی سزا کو بھی برقرار رکھا۔
مردان کی عبد الولی خان یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کے آخری سال کے طالب علم مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو توہینِ مذہب کے الزام پر ہجوم میں شامل طلبہ اور یونیورسٹی ملازمین نے تشدد کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
مشال خان کے قتل کے مقدمے میں 61 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔
کیس میں 4 ملزمان مفرور تھے جن میں ایک حکمران جماعت کے کونسلر عارف بھی شامل تھے جنہیں بعد میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پشاور اور ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالتوں نے 31 ملزمان کو سزائیں سنائی تھیں۔ جن میں مرکزی ملزم کو سزائے موت، 7 کو عمر قید اور 25 ملزمان کو تین، تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جب کہ 28 ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔
تین سال کی سزا پانے والے مجرمان کو عدالت نے بعد ازاں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
مشال کے والد نے ملزمان کی سزاﺅں میں اضافہ اور رہا کیے گئے ملزمان کو سزائیں دینے، جب کہ ملزمان نے سزاﺅں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مشال خان کے والد اقبال خان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر کہا ہے کہ ان کی اپیل کا مقصد انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے فیصلوں میں دی گئی سزاؤں میں اضافے تھا۔ لہذا اب وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اقبال خان نے کہا کہ ان کی کاوش سے مشال خان واپس نہیں آ سکتا۔ مگر ان کا مقصد ہے کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے جمعرات کو سنائے جانے والے فیصلے کے وقت ضمانت پر رہا 28 میں سے 8 ملزمان عدالت میں موجود تھے۔ ان کو اسی وقت حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جب کہ دیگر کی گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے۔