پاکستان نے مغربی ممالک کو اپنے افغان اتحادی منتقل کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دے دی

فائل فوٹو۔

  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم افغان شہریوں کی بتدریج بے دخلی کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
  • شہباز شریف ہدایت کرچکے ہیں کہ حکام تمام قانونی افغان پناہ گزینوں بشمول رہائشی پرمٹ نہ رکھنے والوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کریں اور افغانستان واپس بھیج دیں۔
  • حال ہی میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بتایا ہے کہ لگ بھگ 80 ہزار افغان باشندوں کو مختلف ممالک اپنے ہاں بسانے کے لیے لے جاچکے ہیں اور تقریباً 40 ہزار اس وقت بھی پاکستان میں ہیں۔
  • امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے انخلا کے بعد اپنی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افغان شہریوں کو بیرون ملک بسانے کے وعدے کے ساتھ افغانستان کے پڑوسی ممالک منتقل کیا تھا۔

اسلام آباد _پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر امریکہ سمیت مغربی ممالک نے بیرونِ ملک آباد کرنے کے وعدے پر لائے گئے افغان شہریوں کو رواں برس مارچ تک منتقل نہیں کیا تو انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔

مذکورہ افغان شہری 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان آئے تھے۔ یہ وہ افغان شہری تھے جنھوں نے امریکہ اور نیٹو فورسز سے اپنے تعلق کے باعث کسی ممکنہ انتقامی کارروائی سے بچنے کے لیے پاکستان میں پناہ لی تھی۔

حال ہی میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بتایا تھا کہ لگ بھگ 80 ہزار افغان باشندوں کو مختلف ممالک اپنے ہاں بسانے کے لیے لے جاچکے ہیں اور تقریباً 40 ہزار اس وقت بھی پاکستان میں ہیں۔ ان میں سے مبینہ طور پر 15 ہزار افغان شہری ایسے بھی ہیں جو امریکہ منتقلی کی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیرِ اعظم کی سربراہی میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں لگ بھگ 30 لاکھ افغان شہریوں کے اسٹیٹس کا جائزہ لیا گیا۔ ان افغان پناہ گزینوں میں دستاویزات رکھنے اور نہ رکھنے والے پناہ گزین، کاروباری مقاصد سے نقل مکانی کرنے والے اور ایسے افغان شامل ہیں جو کسی تیسرے ملک جانے کے منتظر ہیں۔

وی او اے نے پیر کو اس اجلاس سے متعلق ایک دستاویز دیکھی ہے جس میں کسی تیسرے ملک منتقلی کے منتظر افغان شہریوں کو 31 مارچ 2025 تک اسلام آباد اور ملحقہ شہر راولپنڈی سے بے دخل کرنے کے منصوبے کا خاکہ دیا گیا ہے۔

شہباز شریف نے وزارتِ خارجہ کو ان ممالک کے سفارتی مشنز سے رابطے یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے جہاں منتقلی کے وعدے پر یہ افغان شہری اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم ہیں یا جن ممالک یہ جانا چاہتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں پیش رفت نہیں ہوتی تو ان افغان شہریوں کو وطن واپس بھیجا جائے گا۔

ساڑھے تین برس قبل امریکہ اور مغربی ممالک کے انخلا کے بعد طالبان نے کابل میں افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ انخلا سے قبل امریکہ دیگر اتحادیوں کے ساتھ دو دہائیوں تک افغان جنگ میں سرگرم رہا جس دوران ہزاروں افغان شہریوں نے ان کے لیے کام کیا۔

انخلا کے وقت اتحادی فورسز نے ہزاروں افغان شہریوں کو بیرونِ ملک بسانے کے وعدے پر افغانستان کے پڑوسی ممالک منتقل کیا۔ ان میں ایک بڑی تعداد کو عارضی طور پر پاکستان لایا گیا تھا۔

گزشتہ ماہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے پناہ گزینوں سے متعلق یو ایس ایڈمیشن پروگرام معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے مطابق اس پروگرام کا جائزہ لیا جائے گا کہ یہ امریکہ کے مفادات سے کتنا ہم آہنگ ہے۔ اس اعلان نے پہلے سے سست روی کے شکار افغان شہریوں کی منتقلی کے عمل کو مزید پیچیدہ کردیا۔

پاکستان کے منصوبے کے مطابق شہباز شریف ہدایت کر چکے ہیں کہ حکام تمام قانونی افغان پناہ گزینوں بشمول رہائشی پرمٹ نہ رکھنے والوں کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کریں اور افغانستان واپس بھیج دیں۔

اگرچہ پاکستان میں قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی مجموعی تعداد کے بارے میں اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے ہیں تاہم سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان میں قانونی طور پر مقیم افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغانوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد ہے۔

SEE ALSO: پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے پر اقوامِ متحدہ کو تحفظات سے آگاہ کردیا: طالبان

سرکاری دستاویز میں پیش کیے گئے خاکے میں کہا گیا ہے کہ افغان شہریوں کو نکالنے کے لیے آپریشنز کا اعلان نہیں کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایک بار جانے کے بعد یہ واپس نہ آئیں۔

پاکستان نے 2023 کے اختتام کے بعد ویزا یا سفری دستاویز نہ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا جس میں آٹھ لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

پاکستان میں اقوامِ متحدہ میں رجسٹرڈ اور پروف آف رجسٹریشن(پی او وی) کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد 10 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔

شہباز شریف کی حکومت نے پہلے ہی پی او آر رکھنے والے افغان شہریوں کو 30 جون 2025 تک پاکستان میں رہنے کی مہلت دے دی ہے۔ ان میں زیادہ بڑی تعداد ایسی ہے جو افغانستان کی خانہ جنگی اور طالبان کی 1996 سے 2001 تک کی پہلی حکومت کے خوف کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق غیر قانونی پناہ گزیوں کی اکثریت یا تو پاکستان میں پیدا ہوئی یا ان کی پرورش یہاں ہوئی ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ملک واپس نہیں جانا چاہتے جس سے وہ مانوس ہی نہیں۔

مزید برآں اقوامِ متحدہ کے مطابق گزشتہ برسوں میں جاری رہنے والے تنازعات، قدرتی آفات اور طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امدادی سرگرمیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ امدادی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو کوئی نہ کوئی معاونت درکار ہے اور یہی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی حوصلہ شکنی کا باعث بننے والا اہم محرک ہے۔

افغانستان میں طالبان کی اسلامی قوانین کی سخت گیر تشریحات کے مطابق خواتین پر تعلیم، معلومات اور عام زندگی سے متعلق عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے بھی کئی پناہ گزین پاکستان نہیں چھوڑنا چاہتے۔