|
ویب ڈیسک—پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ حملوں اور ان میں ہلاکتوں کی ذمے دار کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) ہے۔
سال 2025 کے لیے جاری ہونے والے گلوبل ٹیررازم انڈیکس (جی ٹی آئی) میں 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق درجہ بندی کی گئی ہے جس کے مطابق دہشت گردی کے چیلنجز کے اعتبار سے 163 ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان چوتھے سے دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
انڈیکس کے مطابق دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہونے والا ملک برکینا فاسو ہے جس کے بعد پاکستان اور شام بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر ہیں۔
یہ انڈیکس آسٹریلیا میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) تیار کرتا ہے۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 2024 کے دوران دہشت گردی کے مجموعی طور 1099 حملے ہوئے جن میں 1081 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں 45 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں 2023 کے مقابلےمیں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
ٹیررازم انڈیکس کے مطابق ٹی ٹی پی 2024 کے دوران پاکستان میں دہشت گردی سے ہونےوالی ہلاکتوں میں سے 52 فی صد کی ذمے دار ہے۔ پاکستان میں 2024 کے دوران صرف ٹی ٹی پی نے 482 سے زائد حملے کیے ہیں جن میں 558 افراد ہلاک ہوئے۔
تاہم پاکستان میں 2024 کے دوران سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملہ بلوچ علیحدگی پسند عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) نے کیا۔ نومبر 2024 میں کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر بی ایل اے کے حملے میں کم از کم 25 ہلاکتیں ہوئی تھیں جن میں شہری اور فوجی اہلکار شامل تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے پاکستان میں جاری عدم استحکام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔ 2023 میں ان گروپس نے 116 چھوٹی بڑی کارروائیاں کی تھیں جن میں مجموعی طور پر 88 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ تاہم 2024 میں بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے 504 حملے کیے ہیں اور ان میں ہلاکتیں چار گنا بڑھ کر 388 ہوگئیں۔
دہشت گردی سے متعلق دیگر جائزوں میں یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔
جی ٹی آئی کے مطابق 2021 کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
جی ٹی آئی کے مطابق ’’پاکستان میں دہشت گردی میں ہونے والے حالیہ اضافے کی بڑی وجہ تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی سرگرمیاں ہیں جو افغان طالبان کی اتحادی تنظیم ہے۔‘‘
SEE ALSO: بنوں کینٹ حملے میں 16 عسکریت پسند ہلاک؛ 'کارروائی کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی'رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں سے درپیش دہرے خطرات کے باعث پاکستان کو 2024 میں پیش آنے والے ہمہ جہت سیکیورٹی چیلنجز کی نشان دہی ہوتی ہے جنہیں حل کرنے کے لیے فوجی، سیاسی، سماجی و اقتصادی شعبوں میں اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے لیے چیلنجز کیا ہیں؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی رینکنگ خراب ہونے کی ایک وجہ گورننس کے مسائل تو ہیں ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عراق اور شام جیسے ممالک نے ٹرانزیشن فیز ہونے کے باوجود 75 فی صد تک بہتر کارکردگی دکھائی ہے جب کہ پاکستان میں حالات ابتری کا شکار ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندہ عاصم علی رانا سے بات کرتے ہوئے سیکیورٹی ماہر اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے عامر رانا نے کہا کہ اس صورت حال سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں گورننس کی کمی کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں اور لا اینڈ آرڈر ابھی تک کنٹرول نہیں ہورہا۔ ان کے بقول پاکستان میں گورننس کے سنجیدہ مسائل موجود ہیں۔
عامر رانا نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مختلف گروہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ خطرہ جن دو گروپس سے ہے ان میں پہلے نمبر پر بی ایل اے اور دوسرے نمبر پر ٹی ٹی پی ہے۔
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد اور تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو افغانستان کی صورتِ حال کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول افغانستان میں موجود عبوری حکومت نے وہاں موجود بہت سی دہشت گرد تنظیموں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی بڑھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ داعش نے بھی اپنا نیٹ ورک بڑھایا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں حالیہ عرصہ میں انہیں کامیابی ملی ہے جس کے بعد وہ پاکستان اور افغانستان میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت بھی ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کےلیے طالبان حکومت کو ذمے دار قرار دیتی آئی ہے۔ تاہم کابل کے طالبان حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
SEE ALSO: شدت پسند تنظیموں کے مختلف دھڑوں میں بڑھتی رسہ کشی; معاملہ ہے کیا؟ڈاکٹر قمر چیمہ نے کہا کہ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی کنفیوژ پالیسی کی وجہ سے بھی مسائل ہیں۔ ہمارا فوکس کائنیٹک آپریشن ہیں لیکن انتہا پسندی کے حوالے سے جو اقدامات اور کوششیں ہونی چاہیے وہ نہیں ہورہیں۔
قمر چیمہ نے کہا کہ معاشرتی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف رائے ہموار نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کے مقابلے میں یکسوئی نہیں آرہی ہے۔
عالمی منظر نامہ
دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہونے والا ملک برکینا فاسو ہے جہاں 2024 کے دوران دہشت گردی کے 111 واقعات میں 1532 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں شام کا نمبر تیسرا ہے جہاں حال ہی میں باغی گروپس نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ کر عبوری حکومت قائم کی ہے۔
جی ٹی آئی کے مطابق 2024 میں ایسے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا جہاں گزشتہ سال کے دوران کم از کم ایک دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ ایسے ممالک کی تعداد 58 سے بڑھ کر 66 ہوگئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 میں سات برس کے دوران پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جن ممالک میں دہشت گردی کی صورتِ حال میں ابتری آئی ہے ان کی تعداد بہتری والے ممالک سے زیادہ ہے۔
سال 2024 کے دوران 45 ممالک میں دہشت گردی کے اثرات بڑھے ہیں جب کہ 34 میں بہتری آئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان اور امریکہ کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے مزید تعاون کرنا چاہیے: مبصرین
اسرائیل
انڈیکس میں دہشت گردی سے متاثر ٹاپ ٹین ممالک میں اسرائیل بھی شامل ہے۔
اس انڈیکس میں اسرائیل آٹھویں نمبر پر ہے جہاں 2024 کے دوران 108 حملوں میں 18 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی سے شروع ہونے والی جنگ 2024 میں شدت اختیار کرگئی۔
حماس کے اسرائیل پر 2023 کے حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے جب کہ 250 کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی حملے میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار کے فلسطینیوں کی اموات ہوئی ہیں جن میں نصف سے زائد بچے اور خواتین شامل ہیں۔ تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کا الگ الگ شمار نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل پر حملوں میں اور دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ تاہم اس کے لیے دہشت گردی اور سیکیورٹی کے چیلنجز برقرار ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے کا استحکام اس معاہدے کے مستقبل سے منسلک ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں ایسے علاقے ہیں جو انتہاپسند سرگرمیوں کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں: امریکی وزیر خارجہافغانستان
افغانستان جی ٹی آئی کا نمبر نواں ہے جہاں 2024 کے دوران 87 حملے ہوئے جن میں 113 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان کو دہشت گردی کے مستقل چیلنج کا سامنا ہے البتہ گزشتہ برس وہاں اس کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔
افغانستان میں زیادہ تر کارروائیاں شمالی افغانستان کے طالبان مخالف گروپس نے کی ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ ہلاکتیں داعش خراسان کے حملوں میں ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اے ایف ایف اور این آر ایف جیسے مخالف گروپس کی مزاحمت کے باوجود اپنی حکومت کے چوتھے سال میں داخلی سطح پر استحکام قائم رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم پاکستان سے کشیدہ تعلقات، گورننس اور سیکیورٹی چیلنجز کی وجہ سے افغانستان کو پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے۔
داعش سب سے خطرناک تنظیم
اسلامک اسٹیٹ یا داعش اور اس سے منسلک تنظیموں نے 2024 میں سب سے زیادہ حملے کیے۔ 22 ملکوں میں داعش کے حملوں میں 1805 افراد ہلاک ہوئے۔
چار بڑی دہشت گرد تنظیموں داعش، جماعت نصرت الاسلام و المسلمین(جے این آئی ایم)، تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) اور الشباب کی سرگرمیوں بڑھی ہیں اور ان تنظیموں کے حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں میں 11 فی صد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور ان کی کارروائیوں میں چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: دارالعلوم حقانیہ میں خودکش حملہ: کیا یہ افغان طالبان کی حامی شخصیات پر حملوں کا تسلسل ہے؟رپورٹ کے مطابق ان چاروں تنظیموں کی سرگرمیوں کا دائرہ بھی پھیلا ہے۔ 2023 میں 29 ممالک میں یہ تنظیمیں سرگرم تھیں اور اب یہ 30 ممالک میں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2017 کے بعد مغربی ممالک میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2023 میں مغربی ممالک میں دہشت گردی کے 32 واقعات ہوئے تھے جب کہ 2024 میں ان کی تعداد 52 ہوگئی البتہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال سے کم رہی۔
ایران اور روس ان ممالک میں شامل ہیں جہاں دہشت گردی کے حملوں سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان ممالک میں بھی داعش خراسان کے حملوں کے باعث ہلاکتیں بڑھی ہیں۔
انڈیکس میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ داعش خراسان افغانستان کی سرحدوں سے باہر اپنی سرگرمیاں بڑھا رہی ہے جس سے اس گروہ کے اسٹریٹجک مقاصد میں آنے والی تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے۔