پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے درمیان بدھ کو افغان امن عمل آگے بڑھانے کے سلسلے میں فون پر بات چیت ہوئی۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ پاکستان بین الافغان مذاکرات کے جلد آغاز کا منتظر ہے۔
افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ افغان رہنماؤں کو افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اس وقت موجود تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
عمران خان نے ایک بار پھر اپنے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ ان کے بقول بات چیت کے ذریعے ایک سیاسی تصفیہ ہی پیش رفت کا واحد راستہ ہے۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان نے عبداللہ عبداللہ کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی جس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان سے فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد عبداللہ عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماوں نے اتفاق کیا کہ تشدد کو کم کرنے اور بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کا یہ نادر موقع ہے جس سے افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان گفتگو ایسے وقت میں ہوئی ہے جب منگل کو افغان طالبان کے وفد نے اسلام آباد میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت دیگر حکام سے ملاقات کی۔
عالمی اُمور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ عبداللہ عبداللہ اور وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان رابطہ نہایت اہم ہے۔
ان کے بقول پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں باہمی اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت رہی ہے۔ اس تناظر میں عبداللہ عبداللہ کی جانب سے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرنا خوش آئند ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بڑھے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے رواں سال فروری میں امریکہ اور افغان طالبان میں طے پانے والے معاہدے سے پہلے دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں دوحہ امن معاہدہ طے پایا۔
دوحہ معاہدے میں ہی بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
اس معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنا تھے جب کہ طالبان نے اپنی تحویل میں موجود افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کرنا تھا۔
اگرچہ فریقین نے بڑی تعداد میں ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کر دیا ہے لیکن طالبان کے 300 سے زائد قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر اب بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں بین الافغان مذاکرات کی راہ میں یہی ایک رکاوٹ حائل ہے کیوں کہ طالبان کا اصرار ہے کہ ان کے تمام قیدیوں کی رہائی کے بغیر بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔
امریکہ اور عالمی برداری کی کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں۔
امریکی حکام کی یہ خواہش ہے کہ جس طرح پاکستان نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اسی طرح اسلام آباد اب یبن الافغان مذاکرات کے آغاز کے سلسلے میں بھی ایک مثبت کردار ادا کر ے۔
البتہ تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں دوحہ مذاکرات کی طرح بین الافغان مذاکرات کے اغاز کے لئے پاکستان کا تاحال کوئی موثر کردار اسامنے نہیں آیا۔
تجزیہ کاروں کے بقول بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں کئی سالوں سے جاری تنازع کا دیر پا حل افغان فریقین کو خود ہی تلاش کرنا ہوگا۔