افغانستان کے صدر اشرف غنی نے باقی ماندہ 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کرنے کے بعد فوری طور پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا ہے۔
صدر غنی کا کہنا ہے کہ اب طالبان اور افغان مذاکراتی ٹیم کے درمیان بات چیت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے اپنی مرحلہ وار ٹوئٹس میں کہا کہ صدر غنی نے منگل کو کابل میں امن مذاکراتی ٹیم کے بعض ارکان سے بات چیت کے دوران کہا کہ اُنہوں نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کے معافی نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔
صدر غنی نے کہا کہ حال ہی میں ہونے والے افغان مشاورتی جرگے نے افغان حکومت کے لیے امن کا ایک لائحہ عمل تجویز کیا ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
افغان صدر نے مذاکراتی ٹیم کے ارکان کو بتایا کہ ہمارا بنیادی مقصد افغانستان میں جاری تنازع کو ختم کرنا ہے۔ ان کے بقول افغانستان کی مذاکراتی ٹیم ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لیے طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کرے گی۔
قبل ازیں طالبان نے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر رواں ماہ کے آخر میں ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے دوران جامع جنگ بندی پر بات چیت ہو گی. تاہم افغان حکام سے مذاکرات کے آغاز پر ہی تشدد میں کمی نہیں ہو سکتی۔
افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔ افغان حکومت نے طالبان کے 400 قیدیوں کو رہا کرنا ہے جس کے بعد اگلے مرحلے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بین الافغان مذاکرات سے متعلق منگل کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغان امن مذاکرات امریکہ سے ہونے والے معاہدے کے تحت آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جنگ بندی ایک الگ موضوع ہے جس پر بین الافغان مذاکرات کے دوران بحث ہو گی اور اس کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔
طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن اُنہیں اپنے باقی ماندہ 400 قیدیوں کی رہائی کا انتظار ہے۔
سہیل شاہین نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان افغان تنازع کا حل تلاش کرنے کے لیے بین الافغان مذاکرات میں شامل ہوں گے جب کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے افغان حکومت کو بھی لچک دکھانا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ افغان تنازع یک طرفہ طور پر حل نہیں ہو سکتا۔ اگر افغان حکومت بھی مسئلے کا حل چاہتی ہے تو فریقین کو ایک ساتھ مل کر مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا۔
طالبان اور افغان حکومت نے اب تک بین الافغان مذاکرات کے انعقاد کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ تاہم آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ان مذاکرات کے انعقاد کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
بیلجیم سے تعلق رکھنے والے 'انٹرنیشنل کرائسس گروپ' کی منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی مختلف مسائل پر پوزیشن واضح نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے آئین، سیاسی نظام، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق طالبان یا تو ابہام کا شکار ہیں یا وہ غیر واضح ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان افغانستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے غیر اسلامی اور ملک پر امریکی قبضے کی پراڈکٹ قرار دیتے ہیں۔
بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ آسان نہیں ہو گا۔
ان کے بقول اس مرحلے میں مستقبل میں افغانستان کے سیاسی نظام اور جنگ بندی سمیت کئی دیگر معاملات زیرِ بحث آئیں گے۔ لہذٰا یہ طویل اور مشکل مرحلہ ہو گا جس میں فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے کیوں کہ تمام افغان دھڑوں کی خواہش ہے کہ 40 سال سے جاری طویل جنگ ختم ہو۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اب بھی کچھ عناصر موجود ہیں جو امن عمل کو سبوتاژ کر سکتے ہیں لہذٰا فریقین کو چوکنا رہنا ہو گا۔
دوسری طرف پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے امن عمل کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان فریقین بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغان تنازع کا ایک جامع سیاسی حل تلاش کر لیں گے۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرِ صدارت اجلاس کے دوران فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے افغان امن عمل میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔
دوسری پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود نے امریکہ کے محکمۂ خارجہ میں سیاسی امور کے انڈر سیکرٹری ڈیوڈ ہیل سے منگل کو آن لائن مشاورت کی۔ جس کے دوران پاکستان امریکہ تعلقات سمیت افغان امن عمل پر حالیہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان کے مطابق دونوں عہدیداروں نے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی اور لائن آف کنٹرول کی صورتِ حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے مطابق ڈیوڈ ہیل اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے درمیان تعمیری مشاورت کے دوران علاقائی استحکام اور معاشی نمو کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں اور انتہا پسند گروہوں کے خاتمے کے لیے جاری تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان 29 فروری کو دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت کو پانچ ہزار قیدی جب کہ طالبان کو افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنا تھے۔
افغان حکومت نے طالبان کے 400 قیدیوں کے سوا تمام قیدی رہا کر دیے تھے۔ بعد ازاں اتوار کو ہونے والے لویہ جرگے کی سفارش کے بعد صدر غنی نے ان 400 قیدیوں کی رہائی کا بھی حکم دیا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو جولائی 2021 تک افغانستان سے فوجی انخلا کرنا ہے جب کہ اس دوران طالبان، افغان دھڑوں سے امن مذاکرات کریں گے۔
طالبان سے معاہدے کے وقت امریکہ نے افغانستان سے اپنے فوجیوں کی تعداد 13 ہزار سے گھٹا کر 8600 کر دی تھی۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ امریکہ میں رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے وقت افغانستان میں صرف چار سے پانچ ہزار فوجی ہی باقی رہیں گے۔