رسائی کے لنکس

پاکستان کی آبادی 2050 میں 44 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایک غیر سرکاری تنظیم کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی میں سالانہ 2.2 فی صد شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آبادی میں اضافہ اسی شرح سے جاری رہا تو 31 برس میں پاکستان کی آبادی دوگنا ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان کی آبادی اس وقت 22 کروڑ 9 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جب کہ ماہرین تین دہائیوں میں اس کے 44 کروڑ تک پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح کو 1.5 فی صد تک لانا ہو گا۔ خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات کے پیشِ نظر ماہرین کے خیال میں یہ ہدف حاصل کرنا ایک چیلنج ہے۔

پاکستان میں صحتِ عامہ اور آبادی کی فلاح و بہبود سے متعلق امور کے ماہر ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا ہے کہ امریکہ میں قائم پاپولیشن ریفرنس بیورو کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کی آبادی سے متعلق دیے گئے اعداد و شمار مردم شماری اور سرکاری سروے کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔

ان کے بقول پاکستان میں 15 سے 49 سال کی خواتین میں سے ہر ایک کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت 3.6 ہے جو جنوبی ایشیا میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ارشد محمود کے مطابق یہ اعداد و شمار حیرت کا باعث نہیں ہیں کیوں کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام سب سے پرانا ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد کی راہ میں کئی مسائل حائل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شادی شدہ خواتین کی بڑی تعداد ایسی ہے جو مزید بچوں کی پیدائش نہیں چاہتیں لیکن مانع حمل سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہ خواتین مزید بچوں کی پیدائش نہیں روک سکتیں۔

ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا تھا کہ پاپولیشن کونسل کی رپورٹ کے مطابق ہر سال ایک تقریباً 24 لاکھ کے قریب اسقاط حمل ہوتے ہیں لیکن خواتین جو اسقاط حمل نہیں چاہتی ان کے ہاں بغیر خواہش کے مزید بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔

ان کے بقول پاکستان میں نئے پیدا ہونے والے بچوں میں فی خاندان اوسطاََ ایک بچہ خواہش کے بغیر پیدا ہو رہا ہے۔ اگر خواتین خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہتی ہیں تو ان پھر ان کی مانع حمل کے مناسب طریقوں اور سہولیات تک رسائی ضروری ہے۔

ڈاکٹر ارشد محمود نے کہا کہ حمل روکنے کا سب سے اچھا طریقہ کار مانع حمل گولیوں کا استعمال ہے لیکن یہ طریقہ استعمال کرنے والی شادی شدہ خواتین کی شرح دو فی صد سے بھی کم ہے جب کہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 30 فی صد ہے۔ پاکستان میں خواتین کو ان گولیوں کے مناسب استعمال اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے اس طریقے کا استعمال کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمار ے معاشرے میں معاشی طور پر محروم طبقات اور دیہات میں بچوں کی شرح پیدائش زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مانع حمل سہولیات کمیونٹی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں جو شادی شدہ خواتین کو مناسب خاندانی منصوبہ بندی کے لے مشورے دیتی ہیں۔ لیکن ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی رسائی 60 فی صد آبادی تک ہے۔ باقی 40 فی صد ایسے علاقے ہیں جہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود نہیں ہیں۔

ڈاکٹر ارشد محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح حالیہ سروے کے مطابق اوسطاََ 2.2 فی صد کے قریب ہے۔

ان کے بقول اگر خاندانی منصوبہ بندی پر عمل در آمد کی صورت حال اسی طرح رہتی ہے تو آئندہ 31 برس میں پاکستان کی آبادی جو اس وقت 22 کروڑ 9 لاکھ ہے، دگنی ہو جائے گی۔

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی معیشت پر بوجھ ہے؟

اقتصادی امور کےماہر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کا کہنا ہے کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سماجی و معاشی طور پر اس حصے کو مفید بنانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے جو پوری طرح میسر نہیں ہیں۔

ان کے بقول ملک کی آبادی وسائل کے مطابق ہونی چاہیے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود اس وقت اسکولوں ک باہر بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی مجموعی شرح نمو کے 6 سے 7 فی صد کی سطح پر جانے کے وسیع امکانات ہیں۔ اس کے لیے آبادی ایک اثاثہ بن سکتی ہے۔ روزگار فراہم کرنے کے لیے ملک کی معیشت کو بھی ترقی دینا ضروری ہے۔

اقتصادی امور کے ماہر اکبر زیدی کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی میں سست روی کی وجہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی نہیں ہے۔

ان کے بقول اگر ملک کی آبادی کو ایک اثاثہ خیال کرتے ہوئے انسانی وسائل کو بہتر کرنے کے تعلیم و تربیت فراہم کی جائے تو یہ معیشت کی ترقی میں اس کا کردار نہایت اہم ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں مناسب تعلیم تربیت فراہم نہیں کی جائے گی تو ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔

XS
SM
MD
LG