عراق میں نئے وزیر اعظم کا تقرر مظاہرین نے مسترد کر دیا

محمد توفیق علاوی نے وزیر اعظم نامزد کیے جانے کے بعد قوم سے خطاب کیا۔

عراق میں دو ماہ سے جاری احتجاج کے بعد صدر برھم صالح نے محمد توفیق علاوی کو نیا وزیرِ اعظم مقرر کیا ہے۔

نومبر میں عراق میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے تھے جس پر وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

قطر کے خبر رساں ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق نئے وزیر اعظم کو ایک ماہ میں حکومت بنانی ہے جس کی منظوری پارلیمان سے ضروری ہے تاہم پارلیمان شدید تقسیم ہے۔

وزیر اعظم محمد توفیق علاوی کو قبل از وقت انتخابات تک ملک چلانے کا ہدف دیا گیا ہے تاہم ان انتخابات کی تاریخ کا اعلان تاحال سامنے نہیں آیا ہے۔

محمد توفیق علاوی پہلے بھی کابینہ کا حصہ تھے اور ان کے پاس مواصلات کا قلم دان تھا۔ ان کی تقرری صدر نے ایک موقع پر کی ہے جب انہوں نے سیاسی جماعتوں کو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ کسی ایک امیدوار پر اتفاق کر لیں ورنہ وہ خود کسی کو وزیر اعظم نامزد کر دیں گے۔

عراق میں احتجاج کے دوران کئی بار سیکیورتی اہلکاروں پر بھی تشدد کیا گیا — فائل فوٹو

صدر برھم صالح کے مقرر کردہ نئے وزیر اعظم محمد توفیق علاوی کو بھی مظاہرین نے مسترد کر دیا ہے۔ مظاہرین کئی ہفتوں سے جاری پر تشدد احتجاج میں حکمران طبقے کی مکمل طور پر تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دارالحکومت بغداد میں تحریر اسکوائر پر مظاہرین 'محمد علاوی نامنظور' کے نعرے لگاتے رہے۔

محمد توفیق علاوی عراق کے سابق وزیر اعظم ایاد علاوی کے بھائی ہیں۔ 65 سالہ وزیر اعظم دارالحکومت بغداد کے ہی رہنے والے ہیں۔ انہوں نے 2003 میں عراق پر امریکی حملے اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔

محمد توفیق علاوی 2005 میں رکن پارلیمان بنے تھے جب کہ وہ وزیر اعظم نوری المالکی کی کابینہ میں وزیر برائے مواصلات تھے۔ انہوں نے 2012 میں اس وقت کے وزیر اعظم نوری المالکی پر بدعنوانی پر خاموش کا الزام لگا کر استعفیٰ دے دیا تھا۔

وزیر اعظم نامزد کیے جانے کے فوری بعد محمد توفیق علاوی کا کہنا تھا کہ اکتوبر سے شروع ہونے والے احتجاج میں سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے سیکڑوں افراد کے لواحقین کو انصاف دیا جائے گا۔

عراق میں ایرانی قونصلیٹ نذرِ آتش

'الجزیرہ' کے مطابق ٹی وی پر قوم سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ جرم کرنے والوں کا احتساب کیا جائے اور انصاف حاصل کیا جائے گا۔

احتجاج کے باعث مستعفی ہونے والے وزیر اعظم کی طرح محمد توفیق علاوی نے بھی وعدہ کیا کہ وہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں گے جب کہ بدعنوانی کے خلاف لڑیں گے۔

انہوں نے کسی بھی مذہبی تعصب کے بغیر حکومت قائم کریں گے جب کہ اس میں کوئی دھڑے بندی بھی نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ مظاہرین کا بھی قبل از وقت انتخابات سے قبل دھڑے بندیوں اور مذہبی تعصب کے بغیر حکومت کے قیام کا مطالبہ رہا ہے۔

عراق کے کچھ سیاسی طبقات نے محمد توفیق علاوی کی بحیثیت وزیر اعظم نامزدگی کو مستردکیا ہے۔ لیکن بااثر مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے ان کی حمایت کی ہے۔

ان کی تقرری پر مقتدیٰ الصدر کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل کے لیے ایک بہتر اقدام ہے۔ امید ہے عوام تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔

اقوام متحدہ نے نئے وزیر اعظم نے نامزدگی کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ امریکہ کے بغداد میں قائم سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک خود مختار اور ایماندار حکومت عوام کے مسائل کا حل نکال سکتی ہے۔