رسائی کے لنکس

عراق میں مظاہرین کا ایرانی قونصل خانے پر حملہ


عراق میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ اکتوبر کے آغاز میں شروع ہوا تھا جس میں اب شدت آتی جا رہی ہے — فائل فوٹو
عراق میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ اکتوبر کے آغاز میں شروع ہوا تھا جس میں اب شدت آتی جا رہی ہے — فائل فوٹو

عراق میں جاری احتجاج کی لہر کے دوران مظاہرین نے کربلا میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا ہے۔ احتجاج کرنے والوں نے قونصل خانے سے ایران کا پرچم بھی اتار دیا۔

امریکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق کربلا میں احتجاج کے دوران مظاہرین نے حفاظتی بیریئر ہٹا کر قونصل خانے تک جانے میں کامیاب ہوئے۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین قونصل خانے کی دیواروں سے آگ کے گولے اور پتھر اندر پھینک رہے ہیں جبکہ قونصل خانے کی دیوار پر ایک جگہ عراق کا پرچم بھی لگا دیا گیا ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے اس دوران ہوئی فائرنگ کرکے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش جبکہ احتجاج کرنے والے افراد نے اہلکاروں پر پتھراو کیا۔

'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق فوری طور پر کسی بھی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے شروع میں حکومت مخالف احتجاج کا آغاز ہوا تھا تاہم اب اس احتجاج میں ایران اور اس کے حمایتی مسلح گروہوں کے خلاف بھی مظاہرین کا غصہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

دوسری جانب عراق کے وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے ملک گیر احتجاج کرنے والے مظاہرین سے امن کے قیام کی اپیل کی ہے۔

وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے ایک بیان میں مظاہرین پر زور دیا ہے کہ عراق میں بد امنی اور انتشار سے معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔

انہوں نے احتجاج کرنے والوں سے پُرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے ملک میں عمومی حالات کے قیام میں مدد کی درخواست کی ہے۔

احتجاج کے دوران کئی مقامات پر ایران کا پرچم نذر آتش بھی کیا جا چکا ہے — فائل فوٹو
احتجاج کے دوران کئی مقامات پر ایران کا پرچم نذر آتش بھی کیا جا چکا ہے — فائل فوٹو

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق عراق کے دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے جنوبی علاقوں میں اکتوبر کے آغاز میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس احتجاج کے دوران 250 سے زائد افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

مظاہرین کی جانب ملک میں معاشی عدم استحکام اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ کیا کا رہا ہے۔

وزیر اعظم عادل عبد المہدی کے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مظاہرین کے احتجاج سے سیاسی نظام کو دھچکہ لگا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں لہذا اب احتجاج کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ اس سے ملکی تجارت اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ تیل کے ذخائر اور بندرگاہوں کو جانے والی شاہراہوں کی بندش سے ہونے والا نقصان کئی ارب ڈالرز سے تجاوز ہو چکا ہے۔

انہوں نے مہنگی میں اضافے کی وجہ انتشار کو قرار دیا۔

دوسری جانب عراق کی سب سے اہم بندرگاہ 'ام قصر' پر بدھ سے مکمل طور پر سرگرمیاں رک چکی ہیں۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال شہر بصرہ کے قریب واقع اس بندر گاہ سے مختلف اجناس کی درآمد اور برآمد ہوتی ہے۔

مظاہرین نے اس اہم بندرگاہ کو جانے والی شاہراہ کو بند کر دیا تھا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز سے شدید جھڑپیں ہوئیں۔

ہفتے کے روز اس 'ام قصر' جانے والی شاہراہ پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں میں آنسو گیس کے استعمال کے ساتھ ساتھ براہ راست فائرنگ بھی کی گئی۔ تاہم سیکیورٹی اہلکاروں کو مظاہرین کو شاہراہ سے ہٹانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عراق میں حالیہ احتجاج سے ملک میں دو سال سے جاری استحکام کی صورت حال شدید متاثر ہوئی جبکہ مظاہروں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔

دو روز کے دوران احتجاج میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔

ملک میں تیل کے وسیع ذخائر ہونے کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ ایک بڑے طبقے کو صاف پانی، صحت، تعلیم اور بجلی جیسی بنیادی چیزیں بھی میسر نہیں ہیں۔

XS
SM
MD
LG