رسائی کے لنکس

عراق میں نئی حکومت کے قیام کے لیے حریف جماعتوں میں مذاکرات


پرتشدد مظاہروں اور 400 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
پرتشدد مظاہروں اور 400 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

عراق میں پُر تشدد مظاہروں اور وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کے بعد نئی حکومت کے قیام کے لیے حریف جماعتوں نے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔

تقریباً ایک سال تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے عادل عبدالمہدی نے اتوار کو حیران کن طور پر شیعہ مسلک کے رہنما آیت اللہ علی سیستانی کی مداخلت کے بعد عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

عراق میں گزشتہ دو ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب مشتعل افراد نے نجف میں ایرانی قونصل خانے کو آگ لگا دی جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

عراقی پارلیمان نے اتوار کو عادل عبدالمہدی کا وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ منظور کیا جس کے بعد اسپیکر نے صدر برہام صالح کو نئے وزیرِ اعظم کا نام تجویز کرنے کی ہدایت کی تھی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی کے' مطابق عادل عبدالمہدی کے استعفے سے قبل ہی نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے بات چیت شروع ہو چکی تھی اور اس حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

عراق میں ایرانی قونصلیٹ نذرِ آتش
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:09 0:00

یاد رہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک میں ایرانی مداخلت بند کرائی جائے اور اپنے فیصلے خود کیے جائیں۔

تھنک ٹینک کارنیگ مڈل ایسٹ سینٹر سے تعلق رکھنے والے حارث حسن کے مطابق سیاسی جماعتیں سمجھتیں ہیں کہ نئے وزیرِ اعظم کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو نہ صرف طاقت کے مراکز سمجھے جانے والے حلقوں کو قابل قبول ہو بلکہ مظاہرین بھی اسے قبول کرنے پر تیار ہوں۔

اُن کے بقول، نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے ایسے امیدوار کا انتخاب بھی ضروری ہوگا جو عراق کے اتحادی امریکہ اور ایران کو بھی قبول ہو۔

حارث حسن کا کہنا تھا کہ ایران نے گزشتہ چند برسوں کے دوران عراق میں سیاسی توازن کے لیے بہت سرمایہ کاری کی ہے اس لیے وہ آسانی سے دستبردار ہونے پر راضی نہیں ہوگا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسداران انقلاب کے سربراہ قاسم سلیمانی گزشتہ ہفتے مذاکرات کے لیے عراق پہنچے ہیں۔

عراق میں پرتشدد مظاہروں کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عراق میں پرتشدد مظاہروں کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ ایران ایک مرتبہ پھر عراق میں مداخلت کر رہا ہے جب کہ تہران ہمسایہ ملک میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔

امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر ڈیوڈ شنکر کا واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ عراق کے شہر ناصریہ میں مظاہرین کا قتل چونکا دینے والا ہے۔ عراقی حکومت اس کی تحقیقات کرائے اور پر امن مظاہرین پر تشدد کرنے والوں کو کٹہرے میں لائے۔

یاد رہے کہ عراق تیل سے مالا مال ملک ہے اور وہ تیل درآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم 'اوپیک' کا کروڈ آئل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق عراق میں ہر پانچ میں سے ایک فرد سطح غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور وہاں نوجوان بے روزگاروں کی تعداد ایک چوتھائی ہے۔

XS
SM
MD
LG