پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر اسد قیصر نے سینیٹ و قومی اسمبلی میں موجود جماعتوں کے پارلیمانی سربراہان کا خصوصی اجلاس طلب کیا تھا، جسے حزبِ اختلاف جماعتوں کے عدم شرکت کے اعلان کے بعد ملتوی کر دیا گیا۔
پارلیمانی قیادت کے اس غیر معمولی اجلاس میں عسکری قیادت نے قومی سلامتی سے متعلق امور پر بریفنگ دینی تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی قیادت نے قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ قبل ازیں ستمبر میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ پارلیمانی قیادت کے اجلاس کے بعد اس وقت نامناسب صورتِ حال پیدا ہوئی۔ جب وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے اس غیر اعلانیہ ملاقات کے حوالے سے بیانات دینا شروع کیے۔
شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ آرمی چیف نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں پر واضح کیا ہے کہ وہ ہر منتخب حکومت کے حکم کے پابند ہیں۔
حزبِ اختلاف نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ فوجی قیادت کے ساتھ ہونے والی پارلیمانی رہنماؤں کی اس ملاقات کو ایسے وقت پر ظاہر کیا گیا جب اپوزیشن اتحاد نے فوج کے سیاست میں کردار پر اعلانیہ تحفظات کا اظہار کیا۔
حکومتی رہنماؤں نے اس غیر اعلانیہ ملاقات پر بیانات دینے کے بعد حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے مستقبل میں عسکری قیادت کے ساتھ بند کمرہ اجلاس میں شریک نہ ہونے کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا تھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار حسین نے تصدیق کی کہ اپوزیشن جماعتیں اسپیکر قومی اسمبلی کے بلائے گئے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیان میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے یہ فیصلہ اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کی مشاورت سے کیا ہے۔
میاں افتخار احمد نے کہا کہ حکومت ہر محاذ پر نا کام ہو چکی ہے، اور قومی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریاست کے امور کو چلایا جا رہا ہے لہٰذا ایسے حالات میں کوئی بامعنی بات چیت نہیں ہو سکتی۔
حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کہتے ہیں کہ سیاسی قیادت گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں مصروف ہے اور پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلانے کا یہ مناسب وقت نہیں تھا۔
ان کے بقول پی ڈی ایم کی عدم شرکت کے اعلان کے باعث اسپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے حوالے سے بیان بازی اور بد زبانی میں اس قدر آگے جا چکی ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے پر بعض جماعتوں کو اعتراض ہے۔
جہانزیب جمالدینی یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ عسکری قیادت قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ ضرور دے لیکن اجلاس کی سربراہی وزیرِ اعظم کو کرنی چاہیے۔
اجلاس ملتوی
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے قومی سلامتی سے متعلق اس اہم مشاورت میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
قومی اسمبلی کے جاری اعلامیے کے مطابق پارلیمانی قیادت کا یہ اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہونا تھا جس میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے رکن وفاقی وزرا کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون اور قائم مقام وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان میر افضل کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
اس غیر معمولی اجلاس میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا عسکری حکام کی جانب سے قومی سلامتی کے موجودہ امور پر بریفنگ تھا۔
اجلاس میں گلگت بلتستان اور کشمیر کی قیادت کو مدعو کرنے سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ اجلاس گلگت بلتستان کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق تھا۔
خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کی انتخابی مہم اس وقت جاری ہے۔
پاکستان کی فوج کے سربراہ نے پارلیمانی قیادت کے ساتھ ہونے والی گزشتہ ملاقات میں گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کا درجہ دینے کی تجویز اور افادیت پر زور دیا تھا جس پر سیاسی قیادت سے اس معاملے کو انتخابات کے بعد تک موخر کرنے پر اصرار کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض سیاسی جماعتوں کو گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے پر تحفظات ہیں کہ اس عمل سے مسئلہ کشمیر کی حیثیت اور تنازعہ پر پاکستان کا اصولی موقف متاثر ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اپنے دورہ گلگت کے دوران گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔